• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا ویکسین کے آجانے سے دنیا میں یہ وبا اب تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ اس عظیم کامیابی کا سہرا سائنسدانوں خصوصی طور پر وائرولوجسٹس اور مائیکرو بیالوجیسٹس کے سر ہے جنہوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ کو دریافت کیا جس سے ویکسین بنانے میں مدد ملی۔ وائرس کی دریافت کے محض پندرہ ماہ کے اندر ویکسین کا بنایا جانا بھی نوع انسانی کی عظیم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ وائرس آئندہ کئی سالوں تک ہمارے ساتھ موجود رہ سکتا ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے سب کو ایک مشترکہ حکمت عملی پرعمل کرناہو گا۔

وبا کے ابتدائی چند ماہ خدشات سے بھر پور تھے ۔اعدادوشمار کے مختلف تجزیے بھی خاصے پریشان کن تخمینے پیش کر رہے تھے۔ تاہم وبا کے عروج کے دنوں میں کیسز کی صورتحال باقی دنیا کے مقابلے میں نسبتاًقابو میں رہی۔ کامیابی کی وجوہات میں علاج اور تشخیص کے بہتر انتظامات، بروقت اسکول وکالجوں کی بندش، شادی ہالز اور اجتماعات پر پابندی اور دنیا کے بہترین اداروں سے تحقیقی و تکنیکی اشتراک اور معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔ دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ نوجوان آبادی کا اکثریت میں ہونا ہےکہ عمر رسیدہ افراد اِس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ہمسایہ ملک بھارت میں لوگوں کی عمر کا یہی تفاوت اِس کیلئے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوا۔ ہمارے ہاںحکومتی اقدامات کا بروقت اور درست ہونا بہت اہم ہے۔

ماڈرنا، بائیو ان ٹیک، اسٹرا زینکا، سائینو فارم، سپوتنک پانچ، نوا ویکس، کوویکس اور دیگر ویکسیز کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔تاہم بڑھتی ہوئی عالمی طلب کے باعث ترقی پذیر ممالک کورسد کی فراہمی میں تاخیر کا سامنا ہے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ جب تک سب محفوظ نہیں کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ہم نے فرنٹ لائن ورکرز اور ہیلتھ کئیر ورکرز کی ویکسی نیشن کے بعد ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ویکسی نیشن کا آغاز کردیا ہے اور یہ مہم اس وقت چوتھے ہفتہ میں ہے۔موبائل فون پر پن کوڈ کے ذریعے ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ویکسی نیشن جاری ہے جبکہ پینسٹھ سال سے زائد عمر کے لوگ محض شناختی کارڈ دکھا کر مفت ویکسی نیشن کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سال کے آخر تک امید ہے کہ ہم زیادہ تر آبادی کو ویکسینیٹ کر لیںگے۔

مجھے پورا اعتماد ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں ویکسین کی مہم کے حوالے سے ہماری تیاری بہت بہتر ہے۔ ہمیں ویکسین مہمات کا خاصا تجربہ ہے۔ ویکسین کی طلب اور رسد ، کولڈ چین، اسٹوریج، تربیت یافتہ افرادی قوت، ابلاغ اور دیگر عوامل کے حوالے سے ہمارے پاس پورا نظام موجود ہے۔ سروس ڈیلیوری اور رسد دونوں حوالوں سے جامع پلان تیار ہیں تاہم اس مہم کے حجم ، عوامی خدشات اور ویکسینز کے بارے میں ہمارے عمومی رویوں کے تناظر میں یہ بات طے ہے کہ ابلاغ ہی سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔تحقیقی ادارے IPSOS کے حالیہ سروے کے مطابق تقریباً چالیس فی صدافراد فوری طور پر ویکسین لگوانے کو اہم نہیں سمجھتے۔ اس شرح سے واضح ہے کہ ابلاغ کتنا بڑا چیلنج ہوگا جس کے پیش نظر ہماری تکنیکی ٹیم کو مطلوبہ تیاری کرنے کا کہا گیا ہے۔ وبا کے باعث ہم اپنے نظام میں کچھ بنیادی اصلاحات لانے میں کامیاب ہوئے۔ جیسا کہ بچاؤ ، تشخیص اور علاج کی مربوط صلاحیت جو بین الاقوامی ہیلتھ ریگولیشنز کا حصہ بھی ہے اور پنجاب ہیلتھ سیکٹر اسٹریٹجی کا بھی۔ محض نو دنوں میں ایکسپو سنٹر میں ایک ہزار بستروں پر مشتمل اسپتال کا آغازکر کے اسےبہت بڑے ویکسی نیشن سنٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے صرف اس سنٹر پر پچاس ہزار کے قریب بڑی عمر کے لوگوں اور ہیلتھ ورکرز کواب تک ویکسینیٹ کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال مارچ میں ہمارے پاس محض تین بائیو سیفٹی لیبز اور روزانہ ٹیسٹ کی صلاحیت محض6 سو تھی۔ اب وقت ہم بائیس بائیو سیفٹی لیبز بنا چکے ہیں اور ٹیسٹ کرنے کی اپنی صلاحیت کو25 ہزار سے زائد بڑھا چکے ہیں۔

وبا کے دوران ہم نے کچھ اہم سبق سیکھے جن میں سب سے پہلا یہ تھا کہ صحت، معیشت اور انسانی ترقی آپس میں گہرے اور پیچیدہ انداز میں جڑے ہوئے ہیں اور ہمیں ترقی کے اہداف کو مربوط انداز میں حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے ساتھ منسلک ہو کرچلنا ہوگا۔دوسر ا اہم نکتہ یہ کہ صحت عامہ محض انفرادی یا حکومتی مسئلہ نہیں۔ یہ معاشرہ کی مجموعی ذمہ داری ہے۔ عہد جدید کے مسائل مثلاًوبائی امراض، کورونا، پولیو، مریضوں سے بھرے اسپتال، خون سے پھیلنے والی بیماریاں، ماحولیاتی تبدیلیاں، تحقیق و ترقی، سوشل سیفٹی نیٹ اوردیگر معاملات نجی اداروں، حکومت اور تعلیمی اداروں سے باہم پیوستہ ہیں۔ حکومت کا کام سب کے اشتراک کو مربوط اور مضبوط کرنا ہے۔ تیسرا اہم نکتہ دنیا میں تشخیص، ٹیلی میڈیسن ، تربیت، بائیو فارنزک، جینومکس، مریضوں کے ریفرل نظام کا نفاذ اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہونے والی ترقی سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ اس وبا سے ہم نے سیکھا کہ اہداف کو وقت سے پہلے حاصل کرنا کتنا اہم ہے۔ چوتھا اہم نکتہ اعدادوشمار اور ثبوت وشواہد پر مبنی فیصلہ سازی کے نظام کو فروغ دینا ہے جس کے لیے اعلیٰ کوالٹی کی تحقیق بہت ضروری ہے، جو ہم نے شروع کروا دی ہے۔ پانچواں اہم نکتہ عام حالات میں ایمر جنسیز سے نپٹنے کی صلاحیتیں ہے۔ اس مقصد کے لیے افرادی قوت کی فراہمی اور تربیت،ہائی ڈپنڈنسی یونٹس، انتہائی نگہداشت کے وارڈز، تشخیص اور دیگر صلاحیتیں ہیں۔ اس وبا سے پہلے ہم بہت پیچھے تھے ۔تاہم گزشتہ سال ہم یہ سب بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ وبا ابھی ختم نہیں ہوئی۔تیسری لہر پوری شدت سے حملہ آور ہے۔ بزرگ ضرور ویکسین لگوائیں۔ ویکیسنز کی شکل میں ہمیں عارضی کامیابیاں ضرور ملی ہیں لیکن وائرس سے ہماری جنگ جاری رہے گی۔ اس جنگ کو ہمیں ہر حال میں جیتنا ہے اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ہماری علمی رفتار وائرس کی ارتقائی رفتار سے تیز ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین