ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی کورونا وائرس کی تیسری لہر نے انتہائی شدت اختیار کرلی ہے خیبرپختونخوا میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہےخیبر پختونخوا میں مثبت کیسوں کی تعداد پہلی لہر کے بعد سب سے زیادہ ہے جبکہ تیسری لہر کی شدت کی وجہ سے اس بار متاثرہ افراد اور مسیحائوں کی شہادتوں کا سلسلہ بھی بڑھتا جارہا ہے تاہم عوام کی طرف سے اسے سنجیدہ نہیں لیا جارہا اورلاپرواہی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے حکومت کی طرف سے مقرر کرد ہ ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایس او پیز کی خلاف ورزی پر کارروائیاں جاری ہیں۔
کورونا کیسز میں اضافے کے باوجود عوام اپنا طرز عمل بدلنے پر تیا ر نہیں بازاروں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں نہ سماجی فاصلہ ہے نہ کوئی ماسک پہن رہا ہے جس کی وجہ سے کورونا وباء ایک بار پھر تیزی سے پھیل رہا ہے عوام کی طرف سے کسی قسم کا احتیاط نہیں کی جارہی ہے وائرس کے پھیلاؤ میں واضح اضافہ ہوا ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد بھی بڑھی ہے انسانی زندگیوں کو محفوظ بنانے کیلئے ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا بصورت دیگر حالات مزید گھمبیر شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ ہر جگہ ایس او پیز کی ھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔دوسری طرف حکومت نے کورونا سے بچائو کیلئے ویکسی نیشن سنٹر قائم کردئیے ہیں محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ جمعہ تک 34،ہزار 461شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے افراد کو پہلا اوراور 18131 کو دوسرا انجکشن لگایا جاچکا ہے۔
اسی طرح، 19356 بزرگ شہریوں کو 26 مارچ 2021 تک پہلا انجکشن لگایاجاچکا ہے ۔ حکومت کی طر ف سے کورونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ ہائوس میں پہلے کی طرح پھر خصوصی کنٹرول روم قائم کرنا چاہیے اور وزیر اعلیٰ محمود خان کو خود اسکی نگرانی کرنی چاہیے خیبر پختونخوا میں یومیہ کوروناٹیسٹوں کی تعداد 7 ہزار تک پہنچی ہے جو صوبہ پنجاب اور سندھ سے زیادہ ہے۔ہم نے معیشت کا پہیہ بھی چلانا ہے اور کورونا سے محفوظ رہنا بھی ہے،اس لئے ایس او پیز پر عمل درامد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہماری معیشت ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ ہم مکمل لاک ڈاون کی طرف جائیں۔
احتیاطی تدابیر سے روگردانی ہمیں مکمل لاک ڈاوں کی طرف لے جاسکتی ہے۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے کورونا کی تیسری لہر کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے عوام الناس سے پر زور اپیل کی ہے وہ احتیاطی تدابیر اور حکومتی احکامات پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنائیں تاکہ اس وبا کے وسیع پیمانے پر پھیلاو کو روکا جاسکے۔
حکومت ہر گز نہیں چاہتی کہ تعلیمی، کاروباری اور سماجی سرگرمیوں سمیت دیگر معمولات زندگی بند یا محدود ہوں لیکن صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر حکومت وسیع تر عوامی مفاد میں کچھ سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہے جن کا واحد مقصد عوام کو اس خطرناک وباء سے محفوظ بنانا ہے کیونکہ حکومت کے لئے عوام کی جانوں کا تحفظ سب سے مقدم ہے۔
کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران صوبے کے کاروباری حضرات اور علمائے کرام سمیت عوام کے تعاون کو مثالی قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ عوام صورتحال کی نزاکت اور سنجیدگی کا ادراک کرتے ہوئے اس دفعہ بھی حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کا مظاہرہ کرے گی وزیر اعلی کی طرف سے عوام کو اپیل کے با وجود عوام بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کورونا وائرس سے بچاؤکے سلسلے میں آگاہی کے حوالے سے علماء کروام و آئمہ کرام اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کورونا کی پہلی لہر کے موقع پر جس طرح حکومت نے صوبے کے علماء کرام کو اعتماد میں لیا تھا اس بار بھی حکومت کو علماء کرام کو اعتماد میں لیکر ایک بھرپور آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے حکومت کی طرف سے صوبے کے علماء کرام کا اجلاس بلا کر کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے انہیں کردار ادا کرنے اور جمعہ خطبات میں اس حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی حکمت عملی انتہائی اچھا اقدام ہے تاہم حکومت کو اس حوالے سے بلاامتیاز صوبہ بھر کے علماء کرام کو اعتماد میں لینا چاہیے تاکہ مساجدسے کورونا وائرس کے حوالے سے آگاہی مہم انتہائی موثر انداز میں چلائی جاسکے۔
دوسری جانب خیبر پختونخو ا میں ایک بار پھر کی جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے عوام خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں عوام میں تشویش ابھرتی جارہی ہے تین سالہ حریم فاطمہ کو درندہ صفت ملزمان نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے قتل کردیا تھا کم عمر بچی کے اندوہناک قتل کے واقعہ کے خلاف صوبہ بھر میں تشویش بڑھ گئی حریم فاطمہ کے سفاکانہ قتل کے خلاف بننے والے گرینڈ قومی جرگہ کی طرف سے اعلان کیاگیا ہے کہ حریم فاطمہ کے قاتلوں کے گھر مسمار کئے جائیں گے جرگے کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ حکومت کو قاتلوں کی گرفتاری کیلئے موثر اقدامات کرنے چاہیے اگر اس قسم کا واقعہ پنجاب میں ہوتا تو ارکان اسمبلی فوری طور پر حرکت میں آجاتے لیکن خیبر پختونخوا کے ارکان اسمبلی کی طرف سے موثر کارروائی کرنے کی بجائے صرف حاضری لگائی جارہی ہے جبکہ کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
عوامی حلقو ں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے بہتر اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں اور ملزموں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ اسی طر ح صوبہ بھر سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کے لواحقین نے سنٹرل جیل پشاور کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا لاپتہ افرا د کے لواحقین کے مطابق کہ ہم غریب لوگ دور دراز علاقوں سے اپنی جمع پونجی خرچ کر کے اپنے پیاروں کو سالوں بعد دیکھنے آئے ہیں جس پر جیل حکام کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگ چلے جائیں ایسے احکامات ظلم و زیادتی کے مترادف ہے انہوں نے احتجاجاً سڑکوں کو بند کر دیا اس دوران پولیس حکام نے مذاکرات کیلئے سینیٹرل جیل سے سپرنٹنڈنٹ کو بلایا جنہوں نے لواحقین کو سنٹرل جیل آنے والے180 افراد کی فہرست دکھائی تاہم انکے لاپتہ افراد کے نام نہ ہونے پر انہوں نے پشاور پریس کلب پہنچ کر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں اپنے پیاروں سے ملایا جائے خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں جانی خیل کے مقام پر چار نو عمر لڑکوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی تھیں۔
جنہیں پراسرار طورپرقتل کرنے کے بعد ندی کے قریب قبرستان میں دفن کر دیا گیا تھا یہ لڑکے تقریباً 20 روز پہلے شکار کے لیے گئے تھے اور اس کے بعد سے لاپتہ تھے جانی خیل کے قبیلہ کے لوگوں نے چار نو عمر لڑکوں کے سفاکانہ قتل کے خلاف کئی دنوں سے دھرنوں شروع کرکھا ہے اور انکا مطالبہ ہے کہ انکے پیاروں کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انہیں کڑی سزا دی جائےصوبائی حکومت کی طرف سے صوبائی وزاء نے جانی خیل قبیلہ کے مشران سے مذاکرات کئے لیکن مذاکرات ناکام ہونے کے بعد دھرنے کے شرکاء نے اسلام آباد کا رکا رخ کرلیا ہے چا ر نو عمر لڑکوں کے سفاکانہ قتل کے خلاف سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی احتجاج شروع کردیاگیا ہے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری مالیات اور رکن سینیٹ آف پاکستان حاجی ہدایت اللہ خان نے جانی خیل واقعہ کے خلاف تحریک التوا سینیٹ میں جمع کرادی۔