سندھ ہائی کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں وفاقی حکومت کی رپورٹ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ پیش کی جانے والی رپورٹ میں حراستی مراکز کا ذکر کیوں نہیں؟ عدالت نے اعتراضات لگا کر رپورٹ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو واپس کردی۔
سندھ ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی، سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کرتے ہوئے کہا مسنگ پرسنز فوکل پرسن کی تبدیلی کے لیے کیا کیا؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کو فوکل پرسن مقرر کردیا ہے۔
جسٹس کے کے آغا نے کہا نئے فوکل پرسن پیش کیوں پیش نہیں ہوئے؟ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ چھٹیوں پر ہیں، پیر سے پیش ہوں گے، عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ نئے فوکل پرسن کو مکمل تیاری کے ساتھ عدالت بھیجیں۔
لاپتا افرادکی بازیابی سے متعلق وفاقی حکومت کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وفاقی سیکرٹری داخلہ سے حراستی مراکز کی فہرست اور لاپتہ شہریوں کے نام طلب کیے تھے، پیش کی جانے والی رپورٹ میں حراستی مراکز کا ذکر نہ ہونے پر عدالت نے اعتراضات لگا کر رپورٹ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو واپس کردی۔
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے نامکمل رپورٹ پیش کرنے پر معافی مانگ لی، عدالت نے وفاقی سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے سے تازہ رپورٹ طلب کرتے ہوئے لاپتا شہری موسی اور دیگر کے کیس میں موثر اقدامات کرنے کا حکم دے دیا، جبکہ عدالت نے آئی جی، ڈی جی رینجرز اور دیگر سے 6 مئی تک رپورٹ طلب کرلی ہے۔