شہباز شریف:ہیلو، ہیلو، بھائی جان میں بول رہا ہوں، شہباز۔
نواز شریف:شہباز یہ تو کوئی نیا نمبر ہے۔
شہباز شریف:آج عدالت میں میری پھر تاریخ ہے، کسی کے نمبر سے فون کر رہا ہوں۔
نواز شریف:اچھا، اچھا اور سنائو ضمانت کا معاملہ کہاں تک پہنچا؟
شہباز شریف:فی الحال تو تاریخ پر تاریخ ہی پڑ رہی ہے۔ ہمارے وکیل البتہ پُرامید ہیں کہ جلد ہی ضمانت ہو جائے گی، آج حمزہ بھی تاریخ پر آیا ہے، کچنار قیمہ اور قلفہ گوشت پکوا کے لایا ہے۔
نواز شریف:کمر کی درد کا کیا حال ہے؟ اپنا خیال رکھو، ڈاکٹروں سے مشورہ کرتے رہو۔
شہباز شریف:آپ سنائیں، آپ کی صحت کیسی ہے؟ یہاں کی سیاست تو کافی خراب ہو گئی ہے۔
نواز شریف:میں بالکل ٹھیک ہوں۔ دراصل پیپلز پارٹی ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہی تھی، ہم نے استعفوں پر زور دے کر اسے اپنے کارڈ ظاہر کرنے پر مجبور کردیا، اب ہر طرف سے اس پر تھُوتھُو ہو رہی ہے، پیپلز پارٹی کے حامی بھی اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کرکے یوسف رضا گیلانی کو لیڈر آف دی اپوزیشن بنانے پر تنقید کر رہے ہیں۔ اعتزاز، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور رضا ربانی تینوں نے ہی اس فیصلے کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔
شہباز شریف:بھائی جان، سیاست کو آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں مگر میری رائے میں پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو رہی ہے، ہمیں اس پر ناراض ہونے کی نہیں خوش ہونے کی ضرورت ہے، اگر پیپلز پارٹی کا کوئی کام بنتا ہے تو ہمیں رکاوٹ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟
نواز شریف:شہباز تم کیا بات کر رہے ہو۔ ڈیل کے ذریعے سے اقتدار لینے یا دینے کا کام ختم ہونا چاہئے، جنرل الیکشن ہوں، جس پارٹی کو عوام ووٹ دیں وہ اقتدار میں آئے، پہلے عمران خان ڈیل کرکے آگیا، اب بلاول آجائے، ہمیں یہ منظور نہیں۔
شہباز شریف:بھائی جان اصولی طور پر آپ کا موقف درست ہے مگر میری یہ رائے ہے کہ ہمیں پی ڈی ایم کو برقرار رکھنا چاہئے اور پی ڈی ایم کے اندر پیپلز پارٹی پر اپنا پریشر بڑھانے کی بجائے کم کردینا چاہئے، پی ڈی ایم توڑنا سیاسی طور پر غلط ہے، ہمیں لچک دکھانی چاہئے۔
نواز شریف:ہیلو، ہیلو، میری آواز آ رہی ہے کیا؟
شہباز شریف:جی، بھائی جان ، بالکل صاف آ رہی ہے۔
نواز شریف:ان شاء ﷲ جلد ہی تمہاری ضمانت ہو جائے گی اور پھر تم پی ڈی ایم کے اگلے اجلاس میں شرکت کرنا۔ میں بھی نہیں چاہتا کہ پی ڈی ایم ٹوٹے لیکن پیپلز پارٹی کو دونوں طرف نہیں کھیلنا چاہئے، اگر ہمارے ساتھ اتحاد بنایا ہے تو پھر کھل کر ہمارا ساتھ دے، مقتدرہ کے ساتھ راہ و رسم اور ڈیلیں، یہ تو اخلاقیات اور سیاست دونوں ہی کی خلاف ورزی ہے۔
شہباز شریف:بھائی جان، آپ کی باتیں بجا ہیں مگر ہمیں اتنی سختی نہیں کرنی چاہئے، سختی کریں گے تو اتحاد ٹوٹ جائے گا جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔
نواز شریف:ہمارے پاس تو جدوجہد اور مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں، تمہارے ساتھ مقتدرہ نے الیکشن سے پہلے کیا کیا وعدے کئے تھے؟ کیا ان میں سے کوئی ایک بھی نبھایا؟ یہ سارے جھوٹے لوگ ہیں، یہ ہمیں دغا دیتے ہیں۔
شہباز شریف:حالات کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہئے، دیکھیں باقی وعدے پورے نہیں کئے لیکن آپ کو تو جیل سے نکال کر باہر بھیج دیا۔
نواز شریف:میری وجہ سے انہیں ڈر بھی لگا رہتا تھا کہ کہیں مجھے کچھ ہو گیا تو پنجاب کو ایک نیا بھٹو مل جائے گا، مجھے باہر بھیجنے میں مقتدرہ اور حکومت دونوں کا فائدہ تھا، اب جو مرضی کہیں اس وقت تو سب ہی باہر بھیجنا چاہتے تھے۔
شہباز شریف:یہ سب باتیں درست ہیں لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ وعدہ بھی نبھایا، آپ کو باہر جانے دینا بہرحال ایک رعایت تھی، ہمیں یہ احساس کرنا چاہئے، میرا تو اب بھی یہی خیال ہے کہ ہم مفاہمت کے ذریعے موجودہ حکومت گرا سکتے ہیں۔
نواز شریف:شہباز! میں نے تمہاری بات مان لی تھی، مریم اور میں کئی ماہ تک خاموش رہے تاکہ تمہاری مفاہمتی پالیسی کامیاب ہو جائے لیکن وہ تمہیں چکر دیتے رہے، اقتدار کی موجیں کوئی اور اڑاتا رہا۔
شہباز شریف:اگر ہم تھوڑا سا صبر اور کر جاتے، اگر ہم مفاہمت چلاتے رہتے تو جنوری 2021تک عمران خان کا دھڑن تختہ ہو جانا تھا۔ ہماری لڑائی کی وجہ سے اسے فائدہ ہوا اور اس کا اقتدار طول پکڑتا گیا۔
نواز شریف:دیکھو شہباز یہ تو تھیوریاں ہیں، حقیقت تو یہی ہے کہ دو تین جرنیلوں نے پورے نظام کو کنٹرول میں لے رکھا ہے، وہی عمران خان کوبھی چلا رہے ہیں۔
شہباز شریف:بھائی جان، میں ادب سے عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ جرنیلوں کے نام نہ لیتے تو ہمارا کام آسان ہوتا، آپ نے ان کے نام لے کر ان کا اور عمران کا اتحاد پکا کردیا۔
نواز شریف:شہباز، میں نے سچ بولا تھا، میں 3بار وزارتِ عظمیٰ دیکھ چکا ہوں، مجھے اب اقتدار نہیں بلکہ اصول عزیز ہیں، میں سچی بات سے ادھر ادھر نہیں ہو سکتا۔
شہباز شریف:بھائی جان، مجھے علم ہے کہ آپ کو غصہ ہے اور آپ کا غصہ جائز ہے، ہم ملکی معیشت کو ترقی کی طرف لے جا رہے تھے، بجلی کے کارخانے لگ رہے تھے اور سڑکوں کی تعمیر ہو رہی تھی، اگر ہماری حکومت چل رہی ہوتی تو اب تک ملک کا منظر نامہ بدل چکا ہوتا۔
نواز شریف:شہباز، تم ٹھیک کہہ رہے ہو، انہوں نے تمہاری اورنج ٹرین کا مذاق بنانے کی کوشش کی حالانکہ تم نے اسے بڑی محنت اور ہمت سے شروع کیا تھا۔
شہباز شریف:اگر ہمارا دور ہوتا تو اورنج ٹرین نے اتنا کامیاب ہونا تھا کہ سب منصوبوں کو پیچھے چھوڑ دینا تھا، انہیں کوئی کام ڈھنگ سے کرنا ہی نہیں آتا، اسی لئے روز اورنج ٹرین کے خسارے کی باتیں کرتے ہیں۔
نواز شریف:اب تم تیاری کرو، ضمانت پر رہا ہوتے ہی پی ڈی ایم کے معاملات کو درست کرو۔ پہلے تو کوشش کرو کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی سے استعفوں پر مان جائے اگر وہ نہیں مانتی تو پھر مصلحت سے کام لے کر پی ڈی ایم کو چلانے کی کوشش کرو۔
شہباز شریف:بالکل ٹھیک۔ میری بھی یہی رائے ہے کہ ہمیں استعفوں پر ضد کرکے پی ڈی ایم کا بنا بنایا اتحاد نہیں توڑنا چاہئے بلکہ اسی طرح جلسے اور جلوس جاری رکھنے چاہئیں، ان کا حکومت پر کافی دبائو پڑ گیا تھا۔
نواز شریف: امید ہے جلد تمہاری ضمانت ہوگی، میں دعا بھی کررہا ہوں۔
شہباز شریف: پیشی کا وقت ہو رہا ہے، ان شاء ﷲ دوبارہ آپ سے بات ہوگی تو باقی رہنمائی لوں گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)