• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام اور وہاں تعینات کئے گئے افسروں کو اختیارات کی حدود طے کرنے کیلئے کبھی نوٹیفیکیشن آ رہے ہیں تو کبھی جا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزراء نہ صرف سیکرٹریٹ کے اختیار کم کرنے کو بیوروکریسی کی سازش قرار دے رہے ہیں بلکہ بیوروکریسی کو اپوزیشن سے بڑا دشمن قرار دے دیا گیا ہے۔ مایوس کن حکمرانی اور غیرسنجیدگی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ جہاں ایک 18ویں گریڈ کے افسر کی تقرری و تعیناتی کیلئے سیکرٹری کے پاس اختیار نہ ہو اور وہ اس کام کیلئے سمری چیف سیکرٹری، کابینہ اور پھر وزیراعلیٰ کی منظوری کے لئے بھجواتا ہو، جنوبی پنجاب میں تعینات گریڈ 19اور 20کے افسروں کے اختیارات کم کرنے کا از خود نوٹیفکیشن کیسے کر سکتا ہے؟ بلکہ یہاں یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ اختیارات کی سلبی کے پنجاب میں کئے گئے ان فیصلوں کے بارے میں تو وزیراعظم کو بھی علم ہوتا ہے۔ حکومت اس حقیقت کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ جہاں جنوبی پنجاب بطور نیا صوبہ آئین کے آرٹیکل 1میں ترمیم کے بغیر ممکن نہیں وہاں انتظامی طور پر بھی یہ ممکن نہیں۔ جب صوبہ بنایا جاتا ہے اس کی اپنی ایک اسمبلی، گورنر، وزیراعلیٰ اور کابینہ ہوتی ہے اور اس کے اپنے رولز آف بزنس کے تحت مالیاتی اور انتظامی امور ہوتے ہیں۔ تمام ادارے وہاں آئینی اور قانونی امور سرانجام دیتے ہیں۔ اب اگر حکومت ان تمام چیزوں کے بغیر سسٹم کو اپنی مرضی سے چلانا چاہے تو انتظامی بحران کی کیفیت پیدا ہو جائیگی۔ بیوروکریسی پر سازشیں کرنے کے الزام تو لگتے ہیں کہ وہ جنوبی پنجاب کی انتظامی خودمختاری میں بڑی رکاوٹ ہے تو پھر یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ پنجاب میں چینی بحران اور مافیا کے خلاف کارروائی کے لئے ہدایات تو وفاق میں بیٹھے مشیر دے رہے ہیں۔ ان حالات میں ایک سیکرٹری کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اختیارات کی منتقلی کے کابینہ اور وزیراعلیٰ کی طرف سے کئے گئے فیصلے کو ختم یا اس میں ردوبدل کرے؟ آپ ایک سرکاری ملازم کو بغیر وجہ کے اتنے بڑے واقعے کا ذمہ دار قرار دے کر عہدے سے ہٹا دیتے ہیں۔ اس طرح سرکاری ملازموں میں صلاحیتیں معدوم ہو رہی ہیں کیونکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب کوئی کام نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حکومت کی منظوری کے بعد کئے گئے اقدامات بھی کل کو گلے پڑ سکتے ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سی ایس پی کیڈر ختم کرکے ڈی ایم جی بنا دیا۔ سینکڑوں بیوروکریٹ فارغ کر دیے، بیورو کریسی نے کیا کر لیا؟ سابق صدر پرویز مشرف نے DEVOLUTIONپلان کے تحت بیورو کریسی کے اختیارات سلب کرکے ان سے گھر اور گاڑیاں تک واپس لے لیں تو بیوروکریسی نے کیا کر لیا؟ اسی طرح ایوب خان نے بےتحاشا تبدیلیاں کیں۔ جناب والا! بیوروکریسی جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو انتظامی اختیارات دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ یہ فیصلے حکومت نے کرنے ہوتے ہیں۔ اب دیکھا جائے تو پہلے دن جب پنجاب حکومت نے انتظامی اختیارات کے حوالے سے نوٹیفیکیشن جاری کیا تو ALLOCATION OF BUSINESS ہی نہیں کیا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی کو صحافی بنا دیا جائے لیکن اس کو یہ نہ بتایا جائے کہ تم نے کرنا کیا ہے؟ جنوبی پنجاب میں سیکرٹری تو تعینات کئے گئے لیکن JOB DESCRIPTION نہیں بتائی گئی، پہلے دن سے جنوبی پنجاب میں محکمہ پرائمری ہیلتھ، اسپیشلائزڈ ہیلتھ اور محکمہ اسکول ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کو یکجا کیا گیا تھا لیکن پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد کا اختیار کبھی بھی نہیں دیا گیا۔ مذکورہ محکموں کو یکجا تو کر دیا گیا لیکن رولز آف بزنس میں یہ محکمے تاحال الگ الگ ہیں اور ان کا کام بھی الگ الگ ہے۔ اب اس انتظامی CHARDSکا ذمہ کون ہے اور بدنیتی کہاں ہے؟ جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہو جاتی جس طرح DEVOLUTION OF POLITICAL POWERناممکن ہے، اسی طرح انتظامی اختیارات کی منتقلی بھی ایک انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس سسٹم پر آئے روز سوالات بھی اٹھیں گے اور انتظامی کمزوریاں مزید بڑھیں گی۔ جنوبی پنجاب کے عوام مسائل کے حل کیلئے بغیر کسی سمت کے خوار ہو کر رہ جائیں گے۔ حکومت اتنے بڑے نظام کو بدلنے اور مزید پیچیدگیاں پیدا کرنے کی بجائے جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں کے کمشنروں کو ہی سارے اختیارات دے۔ کمشنروں کو ایک ایک سیکشن افسر، ایڈیشنل کمشنر اسٹیبلشمنٹ، ایڈیشنل کمشنر ریگولیشن اور ایڈیشنل کمشنر پلاننگ کے عہدوں پر چار چار افسر فراہم کر دے۔ یہ سستا اور EFFICIENTسسٹم ہو گا۔ جنوبی پنجاب کے سیکرٹریوں کے پاس 17ویں اور 18ویں گریڈ کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے اختیارات ہیں، اس کے لئے اتنے بڑے اسٹرکچر کی ضرورت نہیں۔ سپر اسٹرکچر نہ بنائیں پہلے ہی سسٹم موجود ہے، کمشنروں کو اختیارات دیں، اس طرح اختیارات کی مرکزیت کا ازالہ بھی ہو جائے گا۔ کل کو اگر سائوتھ پنجاب سیکرٹریٹ ملتان بنتا ہے تو کیا ڈی جی خان والے ملتان آئیں گے اور ڈی جی خان میں سیکرٹریٹ بننے کی صورت میں ملتان والے مسائل کے حل کیلئے ڈی جی خان جائیں گے؟ کمشنروں کو گریڈ17 اور 18جبکہ ڈپٹی کمشنروں کو گریڈ 16تک تمام محکموں کی اسٹیبلشمنٹ کو ڈیل کرنے کے اختیارات دیں تو آپ بغیر کسی اضافی خرچے کے پہلے سے قائم انتظامی اسٹرکچر کے ذریعے لوکل (ضلعی اور ڈویژنل) سطح تک عوام کے مسائل کے تیز ترین اور موثر حل کو یقینی بنا سکتےہیں۔

تازہ ترین