• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کے نظام کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے اور اسے عوامی خواہشات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اصلاحات کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے۔پاکستان میں بھی آئینی، انتظامی، قانونی، انتخابی، عدالتی اور معاشی اصلاحات کی جاتی رہی ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وقت کے ساتھ تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں انہیں مزید بہتر بنایا جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ روز مشاورت کے بعد انتخابی اصلاحات پر حکومتی حکمت عملی وضع کی گئی جو وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے وقت سے ہی ملک میں ہونے والے تقریباً ہر الیکشن کے بعد ان کے دھاندلی زدہ ہونے کے الزامات لگتے رہے ۔1973کے آئین میں صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات یقینی بنانے کی ضمانت موجود ہے مگر طریق کار پر اختلافات رفع نہیں ہو سکے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بعد پھر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ جامع انتخابی اصلاحات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جائے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ کی وضع کردہ حکمت عملی کے تحت انتخابی اصلاحات کے لئے آئینی ماہرین سے مشاورت شروع کر دی ہے جو ایک مستحسن اقدام ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے ماہر قانون سنیٹر بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت کی ہے کہ وہ انتخابی نظام کو شکوک وشبہات سے پاک کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے بھی یقین دلایا ہے کہ حکومت اپوزیشن کی خواہش کے مطابق انتخابی اصلاحات کےلئے تیار ہے ۔اگرچہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کی وسیع خلیج حائل ہے مگر قومی مفاد میں بہتر ہو گا کہ سیاست سے بالاتر ہو کر نہ صرف انتخابات بلکہ ملکی نظام کے ہر شعبے میں اتفاق رائے سے اصلاحات لائی جائیں اور پارلیمنٹ میں بحث و تمحیص کے بعد انہیں حتمی شکل دی جائے۔

تازہ ترین