• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمران اور مخالف جماعتیں دونوں روزانہ نفرتیں کاشت کرتے ہیں۔ میڈیا بڑے خلوص سے ان کی آبیاری کرتا ہے۔ نفرتیں پھیلانے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں انہیں محبت ملے گی تو یہ خیال خام ہے۔

میں آج صرف حسنِ فطرت اور قومی شاہراہوں پر بین الصوبائی رابطوں اور ثقافتی رنگوں کی بات کروں گا۔ میری آپ کی سر زمین چاہتیں بکھیر رہی ہے۔ راستے خیر مقدم کے لیے بانہیں پھیلائے کھڑے ہیں۔ افسانہ نگار ہما بیگ ہنزہ گلگت کی وادیوں میں گھوم رہی ہیں۔ فیس بک پر اپنے نظارے بانٹ رہی ہیں۔ یہ آیت بے ساختہ ورد زباں ہوتی ہے۔ تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ مستنصر حسین تارڑ کتنے خوش قسمت ہیں۔ جوانی میں ان سارے حسین علاقوں سے محو سخن ہوچکے ہیں۔ قومی شاہراہوں کی یکے بعد دیگرے تعمیر نے پاکستان کو خوب تر بنادیا ہے۔ طلسماتی بستیوں کے در کھول دیے ہیں۔ یہ سن کر بہت مسرت ہوتی ہے کہ اندرون ملک سڑک سفر بڑھتا جارہا ہے۔

عالمگیر وبا کووڈ 19 نے جہاں ہلاکتیں اور لا متناہی افسردگی مسلط کی ہے۔ وہاں سڑک سفر کو فروغ بھی دیا ہے۔ جب پروازیں بند ہوگئی تھیں تو ضرورت مند پاکستانیوں نے اپنی گاڑیاں نکالیں۔ اہل خانہ سمیت کراچی، لاہور اور دور دراز علاقوں تک مسافرت کی۔ ہم جیسے بہت سے کاہل بھی کراچی سے اسلام آباد تک گئے۔ نیشنل ہائی ویز، موٹر ویز نے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔درخت ہمکلام ہوتے رہے، پرندے بلائیں لیتے رہے۔ یہ مسافتیں صرف سڑک ہی نہیں دکھاتیں، تہذیب تمدن کے رنگ بھی سجاتی ہیں، آثار قدیمہ میں جھانکنے کی دعوت بھی دیتی ہیں۔ محرابیں، گنبد، مینار گزری صدیوں میں لے جاتے ہیں۔ قومی زبان کا استعمال بڑھاتی ہیں۔ قومی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔ انفرادی تصورات قومی تصورات میں تبدیل کردیتی ہیں اسے صرف ڈرائیور کی نگاہ، گاڑی کے ٹائروں اور سڑک کے ملن تک محدود نہ کریں۔ یہ شاہراہ شہر ، گائوں کی فکر کو صوبائی فکر میں ڈھالتی ہے۔ پھر صوبائی فکر کی حد پار کرکے قومی افکار کا روپ دھارتی ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی لوح(ویب سائٹ) بتارہی ہے کہ پاکستان کے کچے پکے راستوں، موٹر ویز، قومی شاہراہوں سب کی کُل لمبائی 26لاکھ چھتیس ہزار سات سو75 کلو میٹر بنتی ہے۔ اس میں سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی ساڑھے تیرہ ہزار کلومیٹر کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔این ایچ اے سے وابستہ اعلیٰ ادنیٰ افسر، دیگر عملہ کتنا خوش قسمت ہے کہ ان کی ملازمت سفر وسیلۂ ظفر کے کارخیر کے لئے ہے۔ کتنے علاقوں کی خوشحالی کی کنجی ان کے پاس ہے۔ آپ جب کسی قومی شاہراہ پر فاصلے سمیٹ رہے ہوتے ہیں تو جانے انجانے میں آپ کی آنکھیں ملک کو آگے بڑھتا دیکھتی ہیں۔ آپ جن سڑکوں، ٹینکروں، ٹرالروں کے پاس سے گزرتے ہیں وہ ملک کی زراعت، صنعت کی پیداوار کی نمائش کررہے ہوتے ہیں۔ زمین کتنا سونا اگل رہی ہے۔ محنت کش، ٹیکنو کریٹ، کارپوریٹ سیکٹر سب مل کر کونسی مصنوعات پیش کررہے ہیں۔ یہ ساڑھے تیرہ ہزار کلومیٹر اگر چہ پورے راستوں کا صرف 4.6فی صد ہیں لیکن یہ پورے ملک کی تجارتی نقل و حمل کا 80فیصد بوجھ منتقل کرتے ہیں۔ شاہراہیں پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں صرف تجارت میں ہی نہیں دفاع اور سلامتی میں بھی مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ میرے سامنے شاہراہوں کی ایک کہکشاں سجی ہوئی ہے۔ موٹر ویز، قومی شاہراہیں سب مل ملاکر 52سڑکیں جھلملارہی ہیں۔ سمندر سے افغانستان کی سرحد تک پاکستان کے رنگ آپ کی آنکھوں میں اترتے ہیں۔ شمالی علاقوں کی شاہراہیں، محبوب کی زلفوں کی طرح بل کھاتی ہیں۔ بلندیوں سے ہمکنار کرتی ہیں۔ حسن فطرت آپ سے بغل گیر ہوتا ہے۔ فیصلہ کریں۔ باہر نکلیں تو سہی۔

یہ جو امریکہ ہے۔ یورپ ہے۔ اور اب چین۔ ان میں ترقی اور خوشحالی ان شاہراہوں سے ہی آئی ہے۔ یہ قابل اعتماد محفوظ سڑکیں ہی گاڑیوں کی صنعت میں توسیع کا سبب بنتی ہیں۔ خوبصورت ایئر کنڈیشنڈ بسوں کی درآمد کا محرّک ہوتی ہیں۔ امریکہ میں، ریاستوں کے مابین شاہراہوں کا سلسلہ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ 1956 سے شروع ہوا ہے۔ اس نے امریکہ کا چہرہ سنوار دیا۔ امریکی اپنی بین الریاستی شاہراہوں کو اپنی 51ویں ریاست کہتے ہیں۔ ہم بھی قومی شاہراہوں کو اپنا پانچواں صوبہ کہہ سکتے ہیں۔ مگر ہم صوبوں میں اضافے کے قائل نہیں ہیں۔ تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ شاہراہیں سماج کو تبدیل کردیتی ہیں۔ جینے کے انداز اور حسین ہوجاتے ہیں۔ شاہراہوں پر توجہ دی جائے تو آپ کی تہذیب، تمدن سنور جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جہاں بائی پاس ہوتے ہیں۔ وہاں نئی بستیاں ابھر آتی ہیں۔ ٹرکوں ٹریلرز کے ڈرائیور، نئے نئے ڈھابوں کو جنم دیتے ہیں۔ چائے اور کھانے کے معیار کو بدل دیتے ہیں۔ ہر نئے ڈھابے کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر ہوجاتی ہے۔ بچوں کے کھیلنے کی جگہ بھی بن جاتی ہے۔ شاہراہوں نے لمبی ڈرائیونگ کو اکتاہٹ کی بجائے تفریح میں ڈھال دیا ہے۔ امریکہ یورپ میں بھی آگہی چھوٹے قصبوں شہروں میں شاہراہوں کے راستے پہنچی ہے۔ غور کیجئے کہ شاہراہ کی نیت اور مشن کتنا عظیم ہے۔ ہر مسافر کو اپنی منزل تک پہنچانا۔ اس کے دعوے تو ہر سیاسی اور فوجی سربراہ کرتا ہے لیکن منزل تک پہنچانے میں بہت کم کا کردار ہے۔ زیادہ تر ہمیں بھٹکاتے ہی رہے ہیں۔ شاہراہوں کے نتیجے میں مزاج میں سب سے زیادہ تبدیلی بلوچستان میں آئی ہے۔ پاکستان میں موٹر وے کا تصور میاں نواز شریف سے وابستہ ہے۔ وہ کاش ذہنوں میں بھی شاہراہیں بناتے تو موٹر ویز قومی یکجہتی کی پگڈنڈیاں بن جاتے۔ کسی نہ کسی یونیورسٹی نے ضرور تحقیق کی ہوگی کہ پاکستان میں موٹر ویز، قومی شاہراہوں نے معاشرے کو کتنا تبدیل کیا ہے۔ این ایچ اے کو چاہئے کہ ایسی تحقیق کروائے۔

قومی شاہراہ سوچنے کے انداز بہتر کرتی ہے۔ شہر، صوبے کے ذہن بدل دیتی ہے۔ مگر تاریخ کا سوال یہی ہے کہ ہماری اشرافیہ، جاگیردار، حکمران طبقے، مقتدر طاقتیں کیا تبدیل شدہ پاکستان کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔ کیا شاہراہوں نے اشرافیہ کی سوچ کو بھی بدلا ہے؟

تازہ ترین