• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین نیب کے نہ آنے پر پی اے سی برہم، ڈائریکٹر فنانس کواجلاس سے نکال دیا

اسلام آباد(نامہ نگار)پبلک اکا ونٹس کمیٹی نے چیئر مین نیب جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کے کمیٹی میں نہ آنے پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے نمائند ے ڈائریکٹر فنانس کو کمیٹی سے نکال دیا اور کہاکہ چیئرمین نیب خود کو مقدس گائے اور قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، سیاستدا نوں کے ایک ایک انچ کا حساب رکھتے ہیں، خود جو قومی خزانے سے خرچ کررہے ہیں اسکا حساب دینے کوتیار نہیں ۔ 

کمیٹی نے سیکرٹری اسٹیبشلمنٹ، سیکرٹری فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے نہ آنے پر بھی ان کے نمائندوں کو بھی اجلاس سے نکال دیا،کمیٹی نے وزارت پٹرولیم کے مالیاتی نظام کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس کی تنظیم نو کی بھی ہدایت کردی ۔ پی اے سی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت ہو ا جس میں مختلف وزارتوں کی طرف سے ہر ماہ محکمانہ اکا ونٹس کمیٹی کے اجلاس منعقد نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا ۔

چیئرمین نیب جاوید اقبال کے اجلاس میں نہ آنے پر اراکین پھٹ پڑے اور کہا کہ کیا چیئرمین نیب قانون سے بالاتر ہیں،اپنے آپ کو مقدس گائے سمجھتے ہیں۔ ایاز صادق نے کہا کہ اگر چیئرمین نیب اور سیکرٹری نہیں آتے تو پھر ہمیں مستعفی ہوجانا چاہیے 

 چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے کہا کہ چیئرمین نیب سب سے حساب لیتے ہیں اپنا حساب نہیں دیتے،قومی خزانے سے پیسہ خرچ کرینگے تو حساب دینا پڑے گا،ہمارا ایک ایک انچ کا حساب رکھا جاتا ہے لیکن خود کمیٹی کے سامنے آنے کو تیار نہیں ،اگر انہوں نے حساب نہیں دینا تو کسی اور کو پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر بنا دیں۔چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ چیئرمین نیب آنکھیں کھولیں اور ہمیں اپنے مالیاتی حسابات کا حساب دیں۔

 سیکرٹریوں سے کم سطح کے افسران کے اجلاس میں آنے پر کمیٹی نے اظہار بر ہمی کرتے ہوئے ڈی جی فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور ڈائریکٹر فنانس کو اجلاس سے نکال دیا ، بار بار ٹوکنے پر چیئرمین پی اے سی، سابق سپیکر ایاز صادق پر بھی برس پڑے جس پر ایاز صادق نے کہا کہ جو معاملہ ذیلی کمیٹی نے طے کردیا ،اسے منظور کرنے کا اعلان کردیں، رانا تنویر حسین نے کہا کہ ایک تو جو سپیکر بن جاتا ہے آدھا پاگل ہوجاتا ہے۔ 

شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ نادہندہ اداروں کی گیس کیوں نہیں کاٹی جاتی ،سوئی گیس کمپنیوں کے سربراہوں کی تقرری کون کرتا ہے ،ان کی تنخواہ کتنی ہے جو تقرری کرتا ہے، اس کی تنخواہ کم اور جس کی تقرری ہوتی ہے اس کی زیادہ ہوتی ہے ،گیس کمپنیوں کے لائن لاسز کتنے ہیں ،ڈیٹا دیا جائے، پی اے سی نے گیس کمپنیوں کے سربراہوں کی تنخواہوں کی بھی تفصیلات مانگ لیں، چیئر مین پبلک اکاونٹس کمیٹی نے ہدایت کی کہ نادہندہ کمپنیوں اور اداروں نے طاقتور وکلا رکھے ہوئے ہیں،جج چہرہ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں ،حکومت کی نمائندگی اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کرتے ہیں جو طاقتور وکلا کے آگے کچھ بھی نہیں بولتے ۔

 وزارت پٹرولیم کی تنظیم نو کی ضرورت ہے، مالیاتی ڈسپلن نہ ہونے کے برابر ہے، ہر شعبہ اور ہر ادارہ خراب ہے، ریگولیٹرز آنے سے بھی صورتحال بہتری نہیں ہوئی ،اوگرا،نیپرا جیسے ادارے من مانیاں کرتے ہیں ،وزارت کی سنتے ہی نہیں۔

ایسے ریگولیٹرز اداروں کا احتساب ہی نہیں ہو رہا ،ایسے ادارے بہت طاقتور ہیں۔واجبات کی وصولی نہیں ہورہی ۔اس سے قبل سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ مختلف پٹرولیم کمپنیوں کے ذمہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے 349 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ یہ واجبات 3304 مختلف کمپنیوں اور صارفین کے ذمہ ہیں۔ 

رانا تنویر حسین نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کے واجبات کے حوالے سے عدالتوں کے کئی سالوں سے حکم امتناعی ہیں حالانکہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ حکم امتناعی 6 ماہ سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اب حکم امتناع کی آڑ میں یہ ادائیگیاں رکی ہوئی ہیں۔ 

پی اے سی کو پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ سوئی ناردرن نے 68 ارب اور سوئی سدرن نے 159 ارب روپے وصول کرنے ہیں ۔ ماڑی گیس کمپنی کے بھی 119 ارب روپے زیر التوا ہیں۔

تازہ ترین