چین اور ایران کے مابین 25سالہ وسیع دفاعی، تجارتی، اسلحہ کی تیاری، خفیہ اداروں کی رپورٹس کے تبادلے، فوجی مشقوں اور دیگر امور میں دوطرفہ تعاون شامل ہیں۔ اس معاہدہ کے تحت چین ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جو 25برسوں میں کی جائے گی اور چین اس کے متبادل ایران سے ارزاں داموں تیل کی خریداری کرے گا۔
اکیسویں صدی کے تیسرے جاری عشرے تک کا یہ سب سے بڑا جامع اور طویل المدت معاہدہ ہے۔ پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا ایران کو اس طرح کے معاہدہ کی ضرورت تھی؟ اس سوال کا جواب آسان تو نہیں مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا کہ ایران کو سرمایہ کاری کی اشد ضرورت تھی، ایرانی معیشت ایک اندازہ کے مطابق کھوکھلی ہوچکی تھی۔ ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔
عوام میں بے چینی، مایوسی اور بیزاری بڑھ رہی تھی۔ ہر انقلاب خواہ وہ سیاسی اقتصادی ، نسلی، مذہبی اور لسانی بنیاد پر استوار رہا ہو ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اس کی چمک دمک مانند پڑ جاتی ہے۔ تاریخ میں ہر انقلاب اس مرحلے سے ضرور گزر چکا ہے۔ اس مرحلے پر حکمراں طبقہ پریشان رہتا ہے عوام کو اپنی ڈگر پر کیسے چلایا جائے تو پھر وہ بالادست طبقہ نت نئے نعرے تراشتا ہے۔ چین نے ایران کی جاری تمام تر صورت حال کو مدنظر رکھ کر اتنا بڑا فیصلہ کیا کہ وہ ایران اور خطے کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنی بڑی پرکشش پیش کش کی کہ ایران کے پاس انکار یا نظرثانی کی گنجائش ہی نہیں تھی اور یہ معاہدہ طے پا گیا اس معاہدہ کے اعلان کے ساتھ ہی مغربی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ترجمان نے فوراً بیان داغ دیا کہ معاہدہ کی تفصیلات جاری ایران اور چین نے محض سطحی بیانات جاری کرکے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے معاہدہ کی نوعیت زماں و مکاں کی اہمیت بتا رہی ہے کہ دو اہم مملکتوں کے مابین طویل المدت معاہدے کے دامن میں کیا کچھ پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ مغربی میڈیا کے سوالات بھی پہلے سے طے شدہ ہوں گے۔ کیونکہ آج کے دور میں جو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دورہے پاتال کی خبریں حاصل ہوجاتی ہیں جبکہ یہ معاہدہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی والے دو ممالک کا معاہدہ ہے پوشیدہ کیسے رہ سکتا ہے۔ چین کے نزدیک ایران کی دو وجوہات ہیں پہلا ایران کا محل و وقوع اور دوسرا ایرانی تیل باقی سب اپنی جگہ ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایران اپنے اطراف میں رہتے ہوئے اتنے وسیع اور طویل المدت معاہدہ سے سوفیصد مستفید ہوسکتا ہے۔ یہ سوال بظاہر بے جوڑ لگتا ہے مگر اس کو اس طرح دیکھا جائے کہ ایران یا چین سب کچھ کرسکتے ہیں مگر اپنے اپنے پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ بالخصوص ایران جس خطے میں واقع ہے وہاں اس کے تعلقات چند ممالک سے کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ ایسے میں اس خطے میں کچھ فعال گروہ ایسے ہیںجن کو ایران کی مالی سیاسی روحانی امداد اور تعاون حاصل ہے۔ بدلتے حالات میں کیا یہ گروہ اپنی ڈگر چھوڑ کر الگ ہوں گےان کو نئی وردیاں فراہم کی جائیں گی۔
معاہدہ کے تحت چین ایران میں چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جو 25برسوں میں کی جائے گی اور چین اس کے متبادل ایران سے ارزاں داموں تیل کی خریداری کرے گا۔ اکیسویں صدی کے تیسرے جاری عشرے تک کا یہ سب سے بڑا جامع اور طویل المدت معاہدہ ہے
ایران جن ممالک کی پالیسی کی حمایت کرتا ہے یا مخالفت کرتا ہے تو کیا یہ کیا نئے حالات میں اسٹیٹس کو برقرار رکھ سکے گا۔ مثلاً بھارت نے ایران کی بندرگاہ چہابہار میں سرمایہ کاری کرکے بندرگاہ اور اس سے متعلقہ انفرا اسٹرکچر تیار کیا اب جبکہ اس بندر گاہ سے مستفید ہونے کا وقت آیا ہے تو چین ایران معاہدہ سامنے آکھڑا ہے۔ تو ایسے مسائل اور بھی بہت ہیں تو ایران اس حوالے سے کیا کرے گا۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا چین صرف معاشی تجارتی اور دیگر معاملات سے سروکار رکھے گا یا اطراف کے حالات واقعات اور سیاسی مد و جزر سے بھی اس کا واسطہ رہے گا۔ اگر واسطہ رہے گا تو پھر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایسے میں مشرق واسطٰی اور جنوبی ایشیا میں ہلچل پیدا ہوسکتی ہے۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ چار سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری 25برس کی مدت اس طرح ایران کو کیا کیا فائدہ ہوسکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب یوں تو سادہ لگتا ہے کہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اتنی بڑی رقم ایران میں ایران کی ترقی پر خرچ ہوگی تو فائدہ تو ایران کا ہی ہوگا۔ اس جواب کو اگر درست مان لیا جائے تو پھر ضمنی سوال یہ سر اٹھاتا ہے کہ چین کو اتنی بڑی رقم خرچ کرکے کیا ملے گا۔ سوال جتنا سادہ ہے اس کا جواب اتنا ہی پیچیدہ ہے۔ سری لنکا، مالدیپ اور چند افریقی ممالک کی مثال سامنے ہے۔ ملیشیا نے آدھے راستے سے منہ موڑ لیا تھا۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ کاری کا سنہری جال اور اس کی کرامات دنیا نے گزرے ڈیڑھ دو صدیوں میں خوب دیکھی ہیں۔
ضرورت مند کو پیسہ ادھار دو اور اس سے کہو جو خریدنا ہے میری دکان سے خریدنا ہے اس طرح قرضہ دی ہوئی رقم کا نمایاں حصہ اپنا ہی مال فروخت کرکے مع منافع کے واپس جیب میں آگیا۔ ضرورت مند خوش خوش گھر چلا گیا۔ وقت مقررہ پر قرضہ کی رقم نہ لوٹا سکا، کہا گیا کوئی بات نہیں ابھی صرف سود ادا کردو۔ اور یہ سنہری جال امربیل کی طرح پروان چڑھتی جاتی ہے۔ سرمایہ کاری کے اس کلاسک طریقہ کار میں فی زمانہ جو سرمایہ کاری ہورہی ہے وہ سامنے ہے۔
سرمایہ کاری کی جاتی ہے، سڑک پل بجلی گھر کارخانہ جو بھی تعمیر ہورہا ہے اس کا میٹریل، مشینری، دیگر لوازمات سرمایہ کار ملک سے خریدے جائیں گے، پھر اسی ملک کے ماہرین اور مزدور بھی کام کریں گے، اسی سرمایہ کاری سے ان کی اجرت ادا کی جاتی رہے گی۔ آخر میں معائنہ کاروں کے فیس اور دیگر اخراجات بھی اسی مد سے پورے کئے جائیں گے۔ اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر سرمایہ کاری کی رقم واپس سرمایہ کار کی جیب میں جاتی رہے گی۔ مقروض پر قرضہ مع سود لدا رہے گا۔ اگر سرمایہ کار نے قرض دیتے وقت کچھ اضافی شرطیں بھی رکھی ہوں گی تو اس پر بھی عمل ہوگا ایسے میں مقروض کہاں کھڑا ہوگا۔
ایرانی حکومت اور اس کے ترجمان کی جانب سے میڈیا میں یہ کہا جارہا ہے کہ چین کی طرف سے ایران میں اتنی بڑی رقم کی سرمایہ کاری ایک طرح سے ایران کی فتح ہے۔ جبکہ اس معاہدہ کا پہلا ڈرافٹ یا اس کی جھلکیاں سامنے آئی تھیں تو ایران کے بیش تر سیاسی حلقے اس معاہدہ کے بارے میں کھلم کھلا اپنے تحفظات کا اظہارکرنے لگے تھے۔ ایران کے سابق صدر احمدی نجاد نے بھی اس معاہدہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تاحال ایرانی سیاسی اور سماجی حلقوں میں زیادہ تر تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ تاہم سرکاری موقف واضح ہے۔
ایرانی حکومت نے اس معاہدہ کو قبول کیا ہے تو بہت سوچ سمجھ کے کیا ہوگا۔ کیونکہ ایران نے اس معاہدہ کے ذریعے اپنے کچھ دیرینہ خوابوں کی تکمیل تلاش کی ہوگی اور کچھ نئےخواب اس میں شامل کئے ہوں گے۔ اس تمام تر سیناریو میں ایک اہم اور حساس پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ نظریاتی طور پر چین اپنے سوشلسٹ نظریات میں واضح اور چینی کمیونسٹ پارٹی جس کا کوئی ریاستی مذہب نہیں ہے اور اپنے منشور کے مطابق کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی پھر مغربی میڈیا میں سنکیانگ صوبہ میں چینی مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کی خبریں عام ہیں جن میں حراستی کیمپوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کو محصور رکھا جاتا ہے۔
ان سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔ دراصل چین کے صوبہ سنکیانگ سلطنت عثمانیہ میں شامل تھا۔ خلافت عثمانیہ کے بعد چین نے اس علاقے پر اپنی گرفت کرلی اس کا نام جنوبی ترکستان ہوا کرتا تھا وہاں ترک مسلمانوں اور چینی مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے اس صوبہ کی سرحد پاکستان کی سرحد سے ملتی ہے اور یہ چین پاکستان کی مشترکہ گزرگاہ ہے۔ واضح رہے کہ ان دنوں مغربی میڈیا میں مسلمانوں کی خبریں عام ہیں جس کو چینی حکومت شدت سے مسترد کرتی رہتی ہے۔ حقیقت جو بھی ہو چین میں مسلمان نمایاں تعداد میں آباد ہیں اور اپنے دین اور روایات پر قائم ہیں۔ دوسری جانب ایران جہاں اسلامی انقلابی حکومت گزشتہ نصف صدی سے قائم چلی آرہی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو چین اور ایران دریا کے دو متوازی کنارے ہیں۔ کیا زیر بحث تاریخی معاہدہ ان کو باہم ایک کرسکتا ہے یہ سوال بہت حساس ہے اس کا جواب عام فرد کے لئے مشکل ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاسی مفادات ہر شعبہ زندگی پر حاوی ہوتے ہیں۔ ریاستوں کی اندرونی سیاست کچھ اور بیرونی سیاست کچھ ہوا کرتی ہے۔ سیاست اور ریاستی مفادات میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی ضرورت کے تحت نعرے بدل جاتے ہیں، موقف اور رائے بدل جاتی ہے، حکومتیں تبدیل ہوجاتی ہیں مگر مفادات تبدیل نہیں ہوتے ہاں اس کے حصول کے طریقہ کار میں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔
چین ایران حالیہ معاہدہ نے جہاں ایک عالم کو ششدر کر رکھا ہے وہیں اس خطے کے اہم ملک بھارت میں زیادہ ہلچل محسوس کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی طرف سے پہلا موقف سامنے آیا ہے جس میں بھارت نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کا گھیرائو کرنے کے مترادف ہے۔ اگر گہرائی سے دیکھا جائے اور زمینی حقائق کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اس معاہدہ کا سب سے زیادہ اثر بھارت پر پڑے گا۔ بھارت نے ایرانی بندرگاہ چہابہار سے جو امیدیں اور توقعات وابستہ کر رکھی تھیں وہ اب اس معاہدہ کے بعد پوری ہوتی نظر نہیں آتی ہیں۔ چین کسی بھی طور بھارت سے جنگ نہیں چاہتا مگر اس کی تمام دکھتی رگوں پر وہ انگوٹھا رکھنا جانتا ہے بھارت اس وجہ سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہے۔
ایرانی حزب اختلاف کے حلقے چین ایران معاہدہ کو ایران کی خودمختاری کے حوالے سے باعث تشویش قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے باجود معاہدہ کے بارے میں تحفظات کے اظہار کے باوجود یہ حلقے مغربی رہنمائوں کی کوتاہ نظری، زیادہ خود اعتمادی اور ایران سے دوری کو بھی ایک طرح سے اس معاہدہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے دبائو میں ایران کو امریکہ ایران جوہری معاہدہ کو یک طرفہ طور پر منسوخ کرکے بڑی غلطی کی۔
ان حلقوں کا خیال ہے کہ مغربی رہنمائوں نے ایران کو اس حد تک مسائل کا شکار کردیا کہ وہ چین کے ساتھ یہ معاہدہ کرنے پر راضی ہوا۔ جبکہ چینی رہنمائوں نے خطے کی صورت حال، ایران کے مسائل اور مغربی رہنمائوں کی ایران کے بارے میں پالیسی کو نظر میں رکھا تھا اور بروقت اس کا فائدہ اٹھایا۔ مشرق وسطٰی، خلیج اور بحیرہ عرب کے بانیوں میں ایران ہر لحاظ سے آئیڈیل ملک تھا اور چینی ڈپلومیسی یہاں سو فیصد کامیاب رہی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے جس ایران معاہدہ کو گیم چینجر قرار دیا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ 18صفحات پر مشتمل دستاویز میں چار سو ارب کی سرمایہ کاری کے متعلق آئوٹ لائن ظاہر کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین آئندہ 25برسوں میں ایران میں ائیرپورٹ، بندرگاہ، ریلوے، ہائی ویز، بجلی گھر، ٹیلی مواصلات، ڈیم اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ چین اس کے علاوہ ایرانی سرحدوں کی سیکورٹی کے لئے بھی جدید تعمیرات کرے گا تاکہ ایرانی سرحدوں کو جرائم پیشہ اور انسانی اسمگلرز سے محفوظ کیا جاسکے۔ کہا جاتا ہے کہ 2016ء میں چین کے صدر نے ایران کے دورے کے موقع پر ایرانی رہنمائوں کو وسیع تر تعاون کے معاہدہ کی پیشکش کی تھی۔ جب مغربی رہنمائوں نے سرد مہری اختیار کی تو ایران کے پاس مزید آپشن نہیں تھے سوائے چین کی پیش کش کو قبول کرنے کے۔
ایرانی مبصر کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند برسوں میں ایران پر پابندیوں کی وجہ سے ہر راستہ بند ہوتا چلا گیا تھا ایسے میں صرف چین کا راستہ کھلا تھا ایرانی سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنائی کے مشیر خزانہ نے ایرانی ٹی وی پر معاہدہ کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی معیشت پابندیوں کی وجہ سے نڈھال ہوئی تھی تیل کی پیداوار اور ترسیل بھی بری طرح متاثر ہورہی تھی ایسے میں ایرانی معیشت میں سدھار لانے کے لئے ضرورت تھی کہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے ہمارا حدف تھا کہ اس مقصد کے لئے تیل کی پیداوار کو 8.5ملین بیرل روزانہ کا ہدف حاصل کیا جائے اور اس کی کھپت بھی اسی تناسب سے کی جاسکے اس کے لئے چین سے بہتر کوئی آپشن نہیں تھا اور ہم نے اس کا انتخاب کرلیا۔
مغربی میڈیا یہ عندیہ بھی دے رہا ہے کہ ایشیا کی دو قدیم تہذیبوں کے مابین یہ معاہدہ ایک طرح سے تاریخی دستاویز بھی کہی جاسکتی ہے اور یقیناً اس معاہدہ کے مستقبل میں گہرے اثرات رونما ہوسکتے ہیں۔
مغربی میڈیا نے ایران کو خطے کا اہم ملک اور تیل کے بڑے ذخائر والا ملک قرار دیا ہے۔ بلاشبہ ایران خطے میں بڑی بڑی تہذیبوں کا وارث رہا ہے۔ ایران میں چار ہزار قبل مسیح کے آثار قدیمہ دریافت ہوچکے ہیں۔ ایرانی تہذیب ثقافت نے ایشیا مشرق وسطٰی میں گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔