• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرضے موجودہ معاشی نظام کا ناگزیر جزو ہیں اور امریکہ جیسے ممالک بھی دوسروں کے مقروض ہیں۔ مالی وسائل کے ہوتے ہوئے بھی سرمایہ کاری کے لئے قرضوں کا حصول بنیادی ضرورت کے زمرے میں آتا ہے۔ شومئ قسمت کہ وطنِ عزیز میں ایک قرضہ اتارنے کے لئے دوسرے کا حصول ایک مجبوری اور بےبسی کے سوا کچھ نہیں۔ جمعرات کو ہونے والی 10ویں ڈی ایٹ کانفرنس سے کئے جانے والے خطاب سمیت وزیراعظم عمران خان بارہا مختلف مواقع پر بیرونی قرضوں کے حوالے سے حکوت کی مجبوریوں کا اظہار کر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر واجب الادا بیرونی قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 90ارب 12کروڑ 40لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر پیرس کلب کے ممالک کا واجب الادا قرضہ 11547ارب 54کروڑ 70لاکھ ڈالر، نان پیرس کلب ممالک 21873ارب 87کروڑ 30لاکھ ڈالر، کثیر الجہتی ادارے 33ارب 74کروڑ 10لاکھ ڈالر، کمرشل 9ارب 63کروڑ 80لاکھ ڈالر، بانڈز 5ارب 83کروڑ 20لاکھ ڈالر، اور آئی ایم ایف کا قرضہ 7ارب 49کروڑ 30لاکھ ڈالر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر نان پیرس کلب کے تحت چین کا واجب الادا قرضہ 18ارب 2کروڑ 90لاکھ ڈالر، سعودی عرب 95کروڑ 40لاکھ ڈالر، متحدہ عرب امارات 2ارب 2کروڑ 80لاکھ ڈالر، چین کمرشل 6ارب 73کروڑ 50لاکھ ڈالر اور دیگر ممالک کا 2ارب 90کروڑ 30لاکھ ڈالر واجب الادا ہے۔ پاکستان نے رواں مالی سال 21ارب 55کروڑ 10لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ آئندہ مالی سال 14ارب 70کروڑ ڈالر واپس کرنا ہوں گے۔ اس میں تیل کی سہولت بھی شامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے لحاظ سے اس وقت 92.90فیصد ہے جو قرضہ ایکٹ کے تحت 60فیصد یا اس سے کم ہونا چاہئے۔ تخمینے کے مطابق آئندہ مالی برسوں میں قرضوں کی یہ شرح بتدریج کم ہو تی ہوئی با لترتیب 88.2، 82.1، 77.7، 73.3 اور 2025-26میں 69.2فیصد کی سطح پر لائی جانی ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی صورتحال کے لئے جن خطرات کی نشاندہی کی ہے ان میں کورونا کے معاشی نمو پر منفی اثرات، تجارت اور ترسیلات زر سر فہرست ہیں۔ موجودہ مالی سال ترسیلاتِ زر کے حوالے سے بہتر ثابت ہوا ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ برآمدات کے شعبے میں بھی ابتدائی چار ماہ بہتری کے رہے ۔ آئی ایم ایف کی متذکرہ رپورٹ تلخ سہی لیکن اسے مرض کی تشخیص سمجھتے یوئے علاج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے گزشتہ برس تعمیراتی شعبہ کو صنعت کا درجہ دیتے ہوئے بعض اہم مراعات کا اعلان کیا تھا گو کہ یہ شعبہ ابھی سرمایہ کاری کے مرحلے میں ہے لیکن بعد ازاں ریونیو میں خاطر خواہ اضافے کا سبب بنے گا۔ زرعی شعبہ جوملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جمود کا شکار ہے حالانکہ برآمدی صنعت کا بیشتر دارومدار اسی پر ہے۔ ملک میں ہنر مند افرادی قوت کی کمی نہیں جسے بروئے کار لانے کے لئے ابھی تک قابلِ ذکر منصوبہ بندی کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن عرصہ سے غیرفعال ہے۔ سیاحت کی صنعت کے لئے حالات بڑی حد تک سازگار ہو چکے ہیں ایسے ممالک اس شعبے سے اپنی معیشت چلا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان تیل و گیس کے وسیع ذخائر سے مالا مال ہے لیکن ٹھوس منصوبہ بندی کا یہاں بھی فقدان ہے حالانکہ ان کی دریافت سے معیشت کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اس حوالے سے یہ توقع کرنا بے جا نہ ہوگا کہ حکومت سیاسی، معاشی، سماجی سطحوں پر پائی جانے والی بے چینی دور کرتے ہوئے مؤثر اصلاحات کا عمل تیز کرے۔

تازہ ترین