کراچی (ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ نئی مردم شماری کا کام اکتوبر کے مہینے سے شروع ہوجائے گا، امید ہے اس وقت تک بڑی تعداد میں پاکستانی ویکسین لگواچکے ہوں گے، کورونا کی وجہ سے اس وقت صورتحال بہت تشویشناک ہے، پچھلے سال علماء نے مسجدوں میں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد میں تعاون کیا تھا اب وہ تعاون نظر نہیں آرہا،پچھلی دو لہروں کے مقابلہ میں تیسری لہر میں زیادہ لوگ وینٹی لیٹر پر ہیں، کوویکس کے ذریعہ ملنے والی ویکسین ہمیں بھارت نے دینی تھی جو ابھی تک نہیں دی گئی،پرانی مردم شماری مسترد کردیتے تو 1998ء میں چلے جاتے اس لئے فوری طور پر نئی مردم شماری کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔وہ جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی شریک تھے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی کے خاطر پی ڈی ایم کا سودا کردیا،پی ڈی ایم چلتی رہے گی اتحاد سے علیحدہ ہونے والا اپنا نقصان کرے گا، پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اپوزیشن لیڈر کی کرسی حاصل کی، پیپلز پارٹی معاملہ کو معمولی سمجھتی ہے تو پھر پی ڈی ایم میں ان کی جگہ نہیں ہے،بلاول بھٹو نے جو باتیں کیں وہ انہیں زیب نہیں دیتیں۔وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی اسد عمر نےکہا کہ کسی کو نہیں پتا کورونا وائرس کب ختم ہوگا، امید ہے وقت گزرنے کے ساتھ کورونا کا زور کم ہوجائے گا، نئی مردم شماری کا کام اکتوبر کے مہینے سے شروع ہوجائے گا، امید ہے اس وقت تک بڑی تعداد میں پاکستانی ویکسین لگواچکے ہوں گے، مقامی حکومتوں کے الیکشن کیلئے نئی مردم شماری ہونا ضروری تھا، پرانی مرد م شماری پر بہت سے لوگوں کے تحفظات تھے لیکن کسی کے پاس اسے ٹھیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا، پرانی مردم شماری پر تحفظات دور کرنے کا ایک ہی طریقہ نئی مردم شماری ہے، پرانی مردم شماری مسترد کردیتے تو 1998ء میں چلے جاتے اس لئے فوری طور پر نئی مردم شماری کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے اس وقت صورتحال بہت تشویشناک ہے، پچھلی دو لہروں کے مقابلہ میں تیسری لہر میں زیادہ لوگ وینٹی لیٹر پر ہیں، ایس او پیز پر انتہائی کمزوری سے عملدرآمد کروایا جارہا ہے، انڈسٹری ، ٹرانسپورٹ اور مارکیٹس میں ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا، پچھلے سال علماء نے مسجدوں میں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد میں تعاون کیا تھا اب وہ تعاون نظر نہیں آرہا، وزیرصحت پنجاب نے لاہور میں ایک ہفتے کیلئے لاک ڈاؤن کی تجویز پیش کی تھی، ہمارا موقف تھا کہ پہلے پچھلے فیصلوں پر عملدرآمد کروائیں،لاک ڈاؤن پر عملدرآمد نہیں ہوا تو اس کاغذی فیصلے کا کیا فائدہ ہوگا۔