عالمی شہرت یافتہ پلے بیک سنگر احمد رشدی اور نامور نغمہ نگار مسرور انور کی جوڑی نے پاکستان فلم انڈسٹری کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک گیت تخلیق کیے۔وہ گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھولتے ہیں۔
معروف فلمی شاعر مسرور انور 6جنوری 1944 کو شملہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام انور علی تھا۔ فلم ساز اقبال شہزاد اور ہدایت کار حسن طارق کی فلم ’’بنجارن (1962) سے انہوں نے فلمی گیت نگاری کا آغاز کیا اور اس فلم میں انہوں نے یہ گیت لکھے جن کی موسیقی دیبو بھٹہ چاریہ نے دی۔
٭اُمڈ گھمڈ من کی ندی شور کرے جور کرے رے (آئرن پروین)۔٭ماسٹر جی مجھے سبق پڑھا دو، میں ہوں اناڑی (آئرن پروین)۔٭اس نگری میں ہیں سو دھوکے (آئرن پروین)۔
یکم اپریل 1996ء بروز پیر مسرور انور لاہور میں راہی ملک عدم ہوئے اور انہیں کریم پارک علامہ اقبال ٹائون کے قبرستان میں آسودہ خاک کیا گیا، جب کہ نامور گلوکار احمد رشدی حیدرآباد دکن (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سعد انور علی تھا۔ انہوں نے بھارت میں بننے والی فلم ’’عبرت‘‘ میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔
1954 میں وہ اہل خانہ کے ساتھ کراچی پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان کراچی سے مقبول عوامی گیت ’’بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی ہے گھوڑا گاڑی‘‘ گا کر اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔ ان کی گائیکی سے متاثر ہوکر ریڈیو پاکستان کراچی کے معروف سارنگی نواز استاد نتھو خان نے فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ان سے یہ گیت گوائے جو بیزار سرندی نے لکھے:
٭جدھر قدم بڑھائیں گے جدھر نظر اٹھائیں گے (ہمراہ گلستان خان)۔٭مشکل سے قابو میں آیا ہے دم، تم ہو میرے ساتھ (ہمراہ نذیر بیگم)
٭اک بے وفا کے دل کا ارمان بن کر آئے(ہمراہ گلستان خان)۔٭چمکیں سیپ کے موتی جیسے نین تیرے متوالے(ہمراہ نذیر بیگم)
فلم ’’کارنامہ‘‘ 30مارچ 1956 کو ریلیز ہوئی اور اس فلم سے قبل احمد رشدی کی گائیکی سے آراستہ فلم ’’انوکھی‘‘ 31جنوری 1956 کو نمائش پذیر ہوئی، جس میں انہوں نے موسیقار تمربرن کی بنائی دھن پر فیاض ہاشمی کا لکھا یہ مزاحیہ سولو گیت گایا جو اداکار دلجیت مرزا پر فلمایا گیا۔
٭ماری لیلیٰ نے ایسی کٹار، میاں مجنوں کو آیا بخار۔ گیارہ اپریل 1983 بروز پیر احمد رشدی اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ کراچی کے سخی حسن قبرستان میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہیں۔
مسرور انور اور احمد رشدی دونوں ماہ اپریل میں ہم سے رخصت ہوئے۔ دونوں کا یومِ وفات پیر ہے اور دونوں کو بعداز مرگ بالترتیب ’’تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ اور ’’ستارہ امتیاز‘‘ عطا کیا گیا۔ مسرور انور اور احمد رشدی کی پہلی مشترکہ فلم جب سے دیکھا ہے تمہیں (1963) ہے۔ اس فلم کے لیے انہوں نے صرف ایک گیت لکھا، جسے احمد رشدی نے ناہید نیازی و ساتھیوں کے ہمراہ گایا۔ نامور موسیقار سہیل رعنا کی یہ پہلی فلم تھی، جس میں ان کی موسیقی شان دار رہی۔ مسرور انور کا لکھا گیت یہ ہے ’’حسن والوں کا مزاج خدا خیر کرے‘‘۔
اس فلم کے بعد مسرور انور اور احمد رشدی کا ساتھ متعدد فلموں میں ہوا۔ بالخصوص فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ سے جہاں وحید مراد اور پرویز ملک کا بے مثل ساتھ ہوا۔ وہاں ان دونوں کے ساتھ مسرور انور، احمد رشدی اور سہیل رعنا، ان کے ساتھ کام یابی سے جڑ گئے۔ ’’ہیرا اور پتھر‘‘ کراچی میں بننے والی اولین گولڈن جوبلی فلم کے اعزاز سے نوازی گئی۔ اس فلم میں وحید مراد پر سولو نغمہ بھی مسرور انور کا لکھا احمد رشدی نے دل کشی کے ساتھ گایا۔
٭گوری سمٹی جائے شرم سے دل کا بھید چھپائے ہم سے جاننے والے جان گئے، شوخ ادا پہچان گئے۔ ان پانچ کہنہ مشق شخصیات کا ساتھ ’’ہیرا اور پتھر‘‘ کے بعد ’’ارمان‘‘، ’’احسان‘‘، ’’دوراہا‘‘ اور ’’اسے دیکھا اسے چاہا‘‘ میں رہا۔ ان فلموں کے علاوہ مسرور انور کے رقم کردہ اور احمد رشدی کے گائے وہ نغمات ان فلموں میں شامل ہیں اور ان کی مقبولیت ہنوز برقرار ہیں۔
فلمیں یہ ہیں۔ قتل کے بعد، ہم متوالے نوجوان، جوکر، آگ، پھر صبح ہوگی، میرے بچے میری آنکھیں، اشارا، جہاں تم وہاں ہم، دوسری ماں، شہنائی، صاعقہ، آسرا، انیلا، جیسے جانتے نہیں، عندلیت، گھر داماد، لاڈلا، ماں بیٹا، نورین، انجمن، بے وفا، سوغات، شمع اور پروانہ، محبت رنگ لائے گی، نصیب اپنا اپنا، ہنی مون، جلتے سورج کے نیچے، جہاں برف گرتی ہے، سہاگ، میرے ہم سفر، انمول، آس، جال، پیاسا، دامن اور چنگاری، رنگیلا اور منور ظریف، انتظار، آئینہ اور صورت، پردہ نہ اٹھائو، پھول میرے گلشن کا، دشمن، مستانی محبوبہ، نمک حرام، ایثار، پہچان، جاگیر، جب جب پھول کھلے، زنجیر، دل نشیں، شرارت، محبت زندگی ہے، اولاد، تلاش، سچائی، اپنے ہوئے پرائے، درد، مہمان، اچھے میاں، دل کے داغ، عبادت، جان من (ریلیز 1982، مسرور انور اور احمد رشدی کی آخری مشترکہ فلم) تھی۔ مسرور انور نے سات نگار ایوارڈ اور احمد رشدی نے چار نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ احمد رشدی کے آخری دو نگار ایوارڈ جن نغمات کی گائیکی پر انہیں دیئے گئے۔ ان کو مسرور انور نے لکھا۔
ارمان کا گیت ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، تمہارے بِنا ہم بھلا کیا جیئیں گے‘‘ اور ’’نصیب اپنا اپنا‘‘ کا گیت ’’اے ابر کرم آج اتنا برس اتنا برس کہ وہ جا نہ سکے، گھر آیا ہے اک مہمان حسین‘‘۔احمد رشدی کے گائے اور مسرور انور کے تحریر کردہ بعض مقبول نغمات:
٭میرے خیالوں میں چھائی ہے اک صورت متوالی سی نازک سی شرمیلی سی کو کو کورینا (ارمان)۔ ٭اے میری زندگی اے میرے ہم سفر دل کو مجھ سے بچھڑنے کا گم ہےمگر (احسان، ہمراہ مالا بیگم)۔٭اے اجنبی ذرا سوچ لو ایسا نہ ہو کل تنہائیوں میں ہم پھر تمہیں یاد آئیں (دوراہا)۔٭میرے محبوب رک جائو توڑ کے دل یوں نہ جائو (اسے دیکھا اسے چاہا)٭لئے آنکھوں میں غرور ایسے بیٹھے ہیں حضور جیسے جانتے نہیں، پہنچانتے ہیں (آگ)۔٭مجھے تلاش تھی جس کی وہ ہم سفر تم ہو (جہاں تم وہاں ہم، ہمراہ مالا بیگم)۔٭دنیا کے غموں کو ٹھکرادو ہر درد کو تم سہنا سیکھو (دوسری ماں)۔
٭تجھے اپنے دل سے میں کیسے بھلا دوں تیری یاد ہی تو میری زندگی ہے (شہنائی)۔ ٭اے بہارو گواہ رہنا، اے نگارو گواہ رہنا (فلم صاعقہ، ہمراہ مالا بیگم)۔٭بہت یاد آئیں گے یہ دن، تجھے تڑپائیں گے یہ دن (انیلا، ہمراہ مالا بیگم)۔٭ایسے بھی ہیں مہرباں زندگی کی راہ میں جب ملیں تو یوں ملیں جیسے جانتے نہیں (جیسے جانتے نہیں)۔٭کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے کچھ لوگ (عندلیب)۔٭دیکھ کر چہرہ تیرا دل یہ کہتا ہے میرا تجھ کو اللہ نے بنایا ہے (گھر داماد)۔٭پیار مل جائے تو ہر بات حسین لگتی ہے (لاڈلا)۔ ٭دل کے چمن میں پھول کھلا، تجھ سا مجھے محبوب ملا (ماں بیٹا ہمراہ مالا بیگم)
٭ہائے یہ میرا اظہار محبت اُف یہ تیرا شرمانا (نورین)۔٭یادش بخیر بچپن میں کھیلے تھے گھر آنگن میں (انجمن)۔ ٭تمہی کو مبارک رہے دوستو مجھے ایسی دنیا نہیں چاہیے (سوغات)۔٭دل تم کو دے دیا ہے اس کا خیال رکھنا (نصیب اپنا اپنا)۔ ٭یہ پھول سا نازک چہرہ، یہ زلف تیری مستانہ (ہنی مون)۔ ٭افسانہ محبت ہرگز بیاں نہ ہوتا گر تم حسین نہ ہوتے اور میں جواں نہ ہوتا (جلتے سورج کے نیچے)۔ ٭وعدہ کرو ملوگے کل پھر اسی جگہ آئے گا دو دلوں کو ملاقات کا مزہ (میرے ہم سفر)۔
٭وادیاں مجھ کو پکاریں میرا بسیرا ہے وہاں جہاں برف گرتی ہے وہاں (جہاں برف گرتی ہے)۔٭چھیڑ جھاڑ کروں گا آوازار کروں گا (پھول میرے گلشن کا)۔ ٭دل کو جلانا ہم نے چھوڑ دیا چھوڑ دیا (محبت زندگی ہے)۔
٭کیا پتہ زندگی کا کیا بھروسہ ہے کسی کا (جب جب پھول کھلے)۔٭بڑی بڑی آنکھیں میرے دل پہ ستم ڈھائیں (دامن اور چنگاری)۔٭سنائوں کیا تمہیں اپنی میں داستان لوگو (درد)۔