• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھ برس پہلے اہلیہ کی وفات ہوئی تورحمٰن صاحب ٹوٹ سے گئے تھے ۔سرکاری دستاویزات میں نام ابن عبدالرحمٰن تھا ۔مگرسب، اور اکثران کے بچے بھی، آئی اے رحمٰن کے طورپر مشہور ان صاحبِ دانش کو رحمٰن صاحب ہی کہہ کرمخاطب کرتے یا ان کا تذکرہ کرتے۔ وہ اُن دنوں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے سیکریٹری جنرل اورڈائریکٹر تھے اورمیںان کے زیرسایہ ایڈیٹر۔ہم سب دفترکے ساتھی تعزیت کے لئےان کے ہاں گئے۔تعزیت کرنے پرشکریہ ادا کرتے ہوئے کبھی میزپرپڑے اخبارات پر نظر ڈالتے کبھی ہمارے ذمہ کاموں کا پوچھتے۔اگلے روزقل کے موقع پربھی زیادہ وقت انہیں ایصالِ ثواب کے لئے پارہ پڑھتے ہی دیکھا۔کہتے غم ذاتی ہوتا ہے۔

شاید انہوں نے صرف اپنا غم ہی ذاتی سمجھا۔برصغیر کی تقسیم کے وقت پہلے بھارت سے ملتان میں شجاع آباد ہجرت کی اورپھر لاہور آگئے۔ فسادات میں ان کے بہت سے عزیزواقارب مارے گئے۔ان تلخ یادوں کوسینے میں چھپائے، لوگوں کے دکھ دردبانٹنے کو لپکتے۔دفترمیں ہفتہ اوراتوار کوچھٹی ہوتی مگروہ ہرہفتہ کے روزموجودہوتے۔ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق سے متعلق ادارے کو کبھی بندنہیں ہونا چاہئے، مبادا کوئی شخص شکایت لے کرآئے اوراسے سننے کو کوئی نہ ہو۔شکایت کی نوعیت انفرادی ہوتی تو دفترمیں قائم شکایات سیل اس سے نمٹنے کی کوشش کرتا، اجتماعی ہوتی تو کسی ریلی،فیکٹ فائنڈنگ مشن، سیمینار یا ان کے ہرہفتہ شائع ہونے والے کالم میں اس پرصدائے احتجاج بلندہوتی۔ان سب میں اپنی بروقت موجودگی کو یقینی بناتے۔

بلندگو نہیں تھے لیکن جو بات کہتے مدلل اورمضبوط ہوتی۔کج رو اربابِ بست وکشاد اور سماجی رویوں کو آڑے ہاتھوں لیتے۔اس عمل میں نوکری گنوائی، معتوب ہوئے، جیل گئے۔مگر کسی طوریہ وتیرہ نہ چھوڑا۔سخت سے سخت بات نرم الفاظ مگرشائستہ لہجے میں کہنے کا ہنرجانتے تھے۔ کسی سیمینارمیں ایک شریک محفل کوکسی مقررکو باربارٹوکتے دیکھا کہ ان کی تقریرمیں فلاں موضوع پربات کیوں نہیں ہوئی۔رحمٰن صاحب نے شائستگی سے ان سے کہا کہ بھئی جوغزل وہ لائے ہیں پہلے وہ سن لیجیے پھرنظم کی فرمائش بھی کرلیجیے گا۔ایک اوراندازجو کم کم دیکھنے کو ملتا ہے، وہ یہ تھا کہ شکریہ یا ستائش میں بخیل نہیں تھے۔چاہے آپ وہی کام مکمل کرلائے ہوں جوآپ کے ذمہ تھا، شکریہ یوں ادا کرتے جیسے ان پراحسان کردیا ہو۔پھرمعذرت کی جرأت بھی ان میں بدرجہ اتم تھی۔کسی کوڈانٹتے توبا بارمعذرت کرتے۔اس میں چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہ تھی۔علی گڑھ یونیورسٹی ہی کے دور سے ترقی پسندتحریک سے وابستہ، مارکسسٹ تھے مگرہرمکتبِ فکرکا احترام کرتے۔

بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ جتنی تمھاری عمر ہے اس سے زیادہ میرا تجربہ ہے۔نوے برس کی عمر اور ستر سالہ صحافتی تجربے کے باوصف، رحمٰن صاحب توایسا کہہ سکتے تھے بہت سے لوگوں کو۔امن کے پیام بر تھے۔انسانی حقوق کے علم بردار کے طورپر عالمی سطح پرجانے اور مانے جاتے تھے۔ نیورمبرگ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ اور رامون میگسیسیے ایوارڈ ایسے عالمی اعزازت کے حامل تھے۔2016 میں ریٹائرہونے کے بعدسے کمیشن کے ترجمان کے اعزازی عہدہ پرکام کررہے تھے۔ مگرتکبران میں تھا ہی نہیں۔عجزاورمسکراہٹ کے ساتھ جملہ ایسا کہتے کہ لطف ہی آجاتا۔یادداشت قابلِ رشک تھی۔انہیں بات کہتے ہوئے ذہن پرزور نہیں دینا پڑتا تھا۔نہ کہیں خیالات بکھرتے نہ زبان سے لفظ ادا کرنے میں دشواری ہوتی۔ سفر میں ساتھ ہوتے توکبھی کوئی دل چسپ واقعہ سنا رہے ہوتے ،کبھی طالب علمانہ معصومیت سے ایسا سوال پوچھتے کہ ہماری تعلیم ہوجاتی۔ایک باراسلام آباد سے واپسی پر دفتر کی وین میں بیٹھے تواے سی آن کروایا۔ کہنے لگے اے سی اورآئس کریم کا مزہ سردیوں ہی میں آتا ہے۔ کھانے پینے اور خاص طورپرمیٹھے کے شوقین تھے۔

ایمان دار، باضمیر، ہم درد اور محب وطن ، رحمٰن صاحب کی پیرکو علی الصبح وفات ہوئی۔ان کے بیٹے،اپنے دوست،نام ور صحافی اوراپنے والد ایسے بذلہ سنج اشعررحمٰن کو فون کیا تو وہ رندھی ہوئی آواز میں اتنا ہی کہہ پائے، رحمٰن صاحب چلے گئے۔پچھلی جمعرات کو چھپے ان کے کالم کی بازگشت سنائی دے رہی تھی ، اخبار اگلی تحریر کی راہ دیکھ رہاتھا،پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا دفتران کی آمد، ہم ایسے طالب علم ان سے رہ نمائی لینے اور بے نوا لوگ صدا پانے کو ان کے منتظر تھے۔رحمٰن صاحب کے جانے کا یہ غم ہمارے لیے ذاتی تو ہے ہی، سماج کے لیے اجتماعی بھی ہے۔صحافی منیزے جہانگیرکے ٹویٹ سے سندملتی ہے کہ پاکستانی صحافت اورانسانی حقوق سے وابستہ ہم سب یتیم ہوگئے ہیں۔

تازہ ترین