• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم زندگی کے مقاصد کو حاصل کرنے کا ایک آلۂ کار ہے۔ مقاصد کا تعین ہی منزل کی نشاندہی کرتا ہے ورنہ انسان اپنی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔تعلیم کے حصول میں منصوبہ بندی کا فقدان، تشویش کا باعث ہے۔ آج کے بیشتر نوجوان پڑھ کچھ رہے ہیں، بن کچھ رہے ہیں اور بننا کچھ اور چاہتے ہیں اُن کا یہ عمل عملی زندگی میں مستقبل کے تعین میں پریشانی کا سبب بنتا جارہا ہے۔ نوجوان نسل اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور درست سمت کا تعین کریے۔ والدین دورانِ تعلیم ان کا ساتھ دیں۔ 

اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اصل تعلیمی زندگی کی شروعات ہوتی ہیں۔اس وقت بہت سوچ سمجھ کر عملی زندگی میں قدم رکھنا چاہیے۔یہی وہ وقت ہوتاہے جب نوجوانوں کو تعلیم کے حصول کے لئے درست رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اور والدین سے بہتر کوئی رہنمائی نہیں کر سکتا لیکن ان کی عدم توجہ کے باعث نوجوان تعلیمی شعبوں کے انتخاب میں صحیح فیصلہ نہیں کر پاتے۔ اسکول کی تعلیم کے دوران ہی بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی دلچسپی کون سے مضمون میں ہے۔

بعض بچے سائنس پڑھنا چاہتے ہیں اور بعض کی ٹیکنیکل اور آرٹس مضامین میں دل چسپی ہوتی ہے۔ان کی صلاحیتوں کے مطابق راستے ہموار کرنے چاہیے لیکن بعض والدین بچوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں۔ وہ انہیں ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ وغیرہ بنانا چاہتے ہیں، ان کا یہ اقدام بچوں کو اپنی دل چسپیوں سے دور کردیتا ہے ۔ مرضی کے خلاف پڑھنے کی وجہ سےوہ اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ پاتے، جس سے وہ نتائج سامنے نہیں آتے جس کی خواہش والدین کو ہوتی ہے۔ چند ہی نوجوان ہوتے ہیں جو اپنی مرضی کے مطابق تعلیم حاصل کر تے ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں۔

طلبا کی بڑی تعدادوالدین کے کہنے پر،پری انجینئرنگ یا پری میڈیکل میں داخلہ لے لیتی ہے لیکن عدم دل چسپی باعث نتائج صفر ہوتے ہیں۔ بعض نوجوان اپنے دوستوں کی دیکھا دیکھی تعلیمی شعبے کا انتخاب کرتے ہیں۔ دوستوں کے مشوروں پر فیصلہ کرنا اپنی ذہنی صلاحیتوں کے ساتھ ناانصافی ہے ۔ بعض طلباء بی کام یا بی ایس سی کرنے کے بعد ماسٹر آرٹس کے مضمون میں کرتے ہیں ، یہ عمل منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔بعض طلباء اپنے آپ کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیتے ہیں کہ جو قسمت میں ہوگا بن جائیں گے ۔

ہمارے معاشرےکا نوجوان دو طبقوں میں تقسیم ہے ایک غریب ،د وسراامیر ۔ غریب نوجوان اپنی تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کرتےہیں۔ان نوجوانوں میں زیادہ تر کا تعلق سرکاری کالجوں سے ہوتا ہے، اس کے برعکس امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بیش تر نوجوان پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ۔ 

ویسے تو دنیا میں بہت سی شخصیات ایسی تھیں جنہوں نے غربت کے باوجود اپنی لگن ،حوصلوں اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے تعلیم حاصل کی۔ اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ ہمارے ملک میں بھی غریب طبقے کے نوجوانوں نے نام کمایا۔ بات صرف یہ ہے کہ نامساعد حالات سے نہیں گھبرانا چاہیے اور اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔

ہر طالب علم کو اپنی صلاحیت، خواہش، ذہنی استعداد، مالی وسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کر اپنے لئے شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ہر نوجوان کوخود فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس کے لئے کون سا شعبہ بہترہے۔ کوئی بھی طالب علم نالائق نہیں ہوتا۔ غلط شعبہ کا انتخاب کرنے والے عموماً ذہنی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں، جس کی وجہ سے مایوسی، ڈیپریشن، نیند کی کمی جیسی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ بعض اوقات نوجوان خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اکثر تعلیمی اداروں میں سرکاری یا نجی طور پر ایسا کوئی انتظام و اہتمام نہیں ہے کہ نوجوانوں کو کیریئر کے انتخاب کے سلسلے میں صحیح اور بروقت رہنمائی فراہم کی جاسکے۔ کیریئر کونسلنگ کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہی ہوتی ہےاور ذہنی راہیں کھلتی ہیں ۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔

تعلیمی اداروں میں کیریئر کونسلنگ کا باقاعدہ شعبہ نہ ہونے سے طلبہ و طالبات کیریئر کے انتخاب میں مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں کو ترقی کے لئے نصب العین کا تعین کرنا بے حد ضروری ہے، بغیر سوچے سمجھے فیصلے زندگی کو اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وقت کی بھی قدر کرنا چاہئے۔ گزرا ہوا وقت دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا۔

معروف انگریزی مصنف ڈیل کارنیگی نےاپنی ایک کتاب میں لکھا ہے… ’’کامیاب آدمی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نصب العین کو ہمیشہ مقدم رکھے کیونکہ سنگِ میل کے بغیر سفر گمراہ کن ہوسکتا ہے اور ہمیں ہماری زندگی سے بھٹکا سکتا ہے‘کام کرنے کا وقت ابھی ہے اور یہی لمحہ ہے جو آپ کی کامیابی کی ڈور کا سرا پکڑ سکتا ہے، لہٰذا ابھی اٹھیں اور اپنے کام کا آغاز کریں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو تخیلاتی زندگی گزارنے کی بجائے عملی زندگی گزارنی چاہئے اور اپنے کام کو پس پشت ڈالنے یا اس سے نظریں چرانے کی کوشش ہرگز نہیں کرنی چاہئے، ورنہ انسان کامیابی اور ترقی کرنے کی راہ سے بھٹک سکتا ہے۔ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کی سطح پر باقاعدہ کیریئر کونسلنگ کے ادارے قائم کیے جائیں ، جو نوجوانوں کے ذہنی رجحان، صلاحیتوں اور دلچسپیوں کا مشاہدہ و تجزیہ کرنے کے بعد انہیں موزوں شعبے اورپیشے اختیار کرنے کے لئے مناسب مشورے دیں۔ ہم اپنے نوجوانوں کی تعلیمی، عملی، فکری و نظریاتی تربیت کئے بغیر دنیا میں پاکستان کے بارے میں غلط اور منفی پروپیگنڈے کو ختم اور ملک کا مثبت اور روشن چہرہ پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ صحیح وقت پر صحیح کیریئر پلاننگ اور کونسلنگ نہ ہونے کے باعث کیفیت یہ ہے کہ جس شعبے میں پہلے ہی بے روزگار ہیں، اسی شعبےمیں نوجوان ڈگریاں لےرہے ہیں۔

نوجوان دوستو! اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے زندگی کے فیصلے خود کریں… اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیں۔ اپنی مرضی کے مطابق شعبہ منتخب کریں اور کامیاب انسان بن کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔ محنت، جستجو، جدوجہد کو اپنا نصب العین بنالیں۔ کیریئر بنانے کے لئے اپنی زندگی میں توازن قائم کریں۔ نوجوان نسل اپنی زندگی سے مادیت پسندی کو نکال کر مقصدیت پسندی کے تحت زندگی گزارنا سیکھے تاکہ درست سمت کا تعین ممکن ہوسکے۔

تازہ ترین