8 اپریل کو سرگودھا یونیورسٹی کے لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کے لیے اسلام آباد سے موٹروے پر رواں تھا کہ نیلہ دلہ ، چکوال کے قریب اچانک گاڑی بند ہوگئی۔
یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ جس مقام پر میری گاڑی بند ہوئی عین اسی جگہ سڑک کے دوسری جانب ایک اور صاحب بھی اپنی خراب گاڑی کسی مکینک کو چیک کروا رہے تھے۔
مکینک صاحب چندلمحوں میں میرے پاس آئے اور گاڑی دیکھنے کے بعد بولے جناب،’’ گاڑی کا انجن خراب ہوگیا ہے‘‘۔ اس پر میری پریشانی فطری تھی۔
اس صورتحال میں منزل پر پہنچنا تو محال نظر آرہا تھا۔ اتنا سمجھ میں آیا کہ موٹروے پولیس کو کال کیا جائے۔ ایمرجنسی نمبر 130 فوری طور پر ذہن میں نہیں آیا لہٰذا موٹروے پولیس میں تعینات ایک دوست کو فون کردیا۔
اگلے چند لمحوں میں انسپکٹر حسرت عباس خاتون سب انسپکٹرمسرت نگاہ کے ہمراہ میرے پاس پہنچے تو گویا میرے سارے مسئلے حل ہوگئے۔ گاڑی کو راولپنڈی پہنچانے کا بندوبست ہوا تو میں نے واپس جانے کی بجائے اطمینان سے سرگودھا جانے کا فیصلہ کرلیا۔
ماضی میں ایک دو بار غلطی کرنے پر موٹروے پولیس کے ہاتھوں چالان ہوچکا ہے۔ چالان کی فیس بھرتے وقت کبھی اس لیے تکلیف محسوس نہیں کی کہ ہمیشہ قوی یقین رہا ہے کہ یہ ادارہ قانون کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے اور مجھ سمیت تمام شہریوں کو قومی شاہراہوں پر بھرپور تحفظ فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کے باقی پبلک سروس اداروں کا حال اس سے برعکس ہے۔ اگلے 20 منٹ کے اندر میں ایک بس میں سوار ہوکر سرگودھا رواں تھا۔
یونیورسٹی آف سرگودھا کے منتظمین نے سالم انٹرچینج پر میری سہولت کے لیے گاڑی بھیج دی تھی۔ گاڑی میں سوار ہوتے ہی میں صبح سے اس وقت تک پیش آنے والے حالات کا جائزہ لے رہا تھا اور موٹروے پولیس حکام کا دل ہی دل میں شکریہ ادا کررہا تھا کہ انہوں نے مشکل وقت میں بڑے اخلاق کیساتھ میری مدد و رہنمائی کی۔ راستے میں سوچ رہا تھا کہ نجانے موٹروے پولیس روزانہ کتنے لوگوں کی مدد کرتی ہے؟
میرے دل میں رہ رہ کر یہ خیال بھی آرہا تھا کہ اب موٹروے پولیس جیسے ادارے کے ہاتھوں سے نکل کر ایک سرکاری یونیورسٹی جارہا ہوں خدا جانے وہاں کیا حالات ہوں گے۔ یونیورسٹی کے احاطے میں داخل ہوا تو یہاں عمارت اور صفائی کا نظام دیکھ کر گویا مجھے ایک جھٹکا لگا یہاں تو دنیا ہی الگ تھی۔
تھوڑی دیر میں سینئر صحافی برادرم سبوخ سید سے ملاقات ہوگئی۔ سبوخ یونیورسٹی کی طرف سے منعقدہ لٹریچر فیسٹیول کےسوشل میڈیا پر منعقدہ آن لائن مذاکرے کے میزبان تھے جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد سینئر صحافی محترمہ عنبر شمسی اور مجھے گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔
مذاکرے کے لیے یونیورسٹی کے ہال میں داخل ہوا تو جیسے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہال آرام دہ سیٹوں، روشنیوں اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ تھا۔ اسٹیج کسی بھی بین الاقوامی معیار سے کم نہ تھا اور اس سب کے ساتھ ہمارے مذاکرے کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر پہنچانے کے لیے بھرپور انتظام کیا گیا تھا۔
کورونا کے باعث ہال میں طلبہ تو موجود نہیں تھے لیکن یونیورسٹی کے بعض اساتذہ ضرور موجود تھے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد بھی تھوڑی دیر میں پہنچ گئے۔ مذاکرے میں عنبر شمسی اسکرین پر برقی عکسی رابطے کے ذریعے موجود تھیں۔
’’سوشل میڈیا‘‘ کے موضوع پر ہماری گفتگو کم و بیش دو گھنٹے تک جاری رہی۔ جسکی تفصیلات یونیورسٹی آف سرگودھا کے یوٹیوب چینل اور فیس بک اکاؤنٹس پر دیکھی جاسکتی ہیں۔
سرگودھا میں گزشتہ کم و بیش چار سال سے لٹریچرفیسٹیول کے انعقاد کا ذکر سنتا آیا ہوں لیکن یہاں آکر پتہ چلا کہ اس کی بنیاد یونیورسٹی آف سرگودھا کی موجودہ انتظامیہ نے ڈالی ہے۔ اس بار کورونا کے باعث محدود نوعیت کی سرگرمیاں کی گئیں مگر اس کے باوجود 14مختلف موضوعات پر مذاکروں میں 35ماہرین کو مدعو کیا گیا۔
فنی تخلیقات کی دونمائشیں منعقد کی گئیں اور50فنکاروں کو بھی الگ سے مدعو کیا گیا۔ میں حیران تھا کہ پنجاب کے اس پسماندہ علاقے میں اس معیار کی یونیورسٹی اپنے 26 ہزارطلبہ کو نہ صرف معیاری درس و تدریس کی فراہمی کو یقینی بنا رہی ہے بلکہ طلبہ و طالبات کو قومی و بین الاقوامی سطح کے ماہرین سے براہ راست ملنے اور جاننے کے مواقع بھی دے رہی ہے۔
بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلرآکسفورڈ یونیورسٹی میں جناح چیر پرپانچ سال پاکستان کی نمائندگی کرچکےہیں۔
انہوں نے یہاں آتے ہی نہ صرف یونیورسٹی کا انفراسٹرکچر بدلا بلکہ یہاں دی جانے والی تعلیم کوبھی مرکزی دھارے کے قومی تعلیمی اداروں کے معیارکے برابرلانے کی کوشش کی۔ یونیورسٹی میں قابل طلبا و طالبات کے لیے انٹرن شپ بھی متعارف کروائی گئی ہے۔
سرگودھا سے اسی رات واپسی ہوگئی۔ اگلے روز وزیراعظم معائنہ کمیشن کے چیرمین جناب احمد یار حراج سے ملاقات ہوئی۔
گفتگو کے دوران انہوں نے اپنے کمیشن کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے جہاں کمیشن کی طرف سے مختلف اداروں کے حوالے سے تیار کی گئی 30 رپورٹوں کا ذکر کیا تو وہاں ان رپورٹس پر عدم عملدرآمد کے حوالے سے بیوروکریسی کی سستی اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پرعدم اعتماد کا اظہار بھی کیا ۔
تاہم ان کی زبان سے موٹروے پولیس کی کارکردگی کا ذکر سنا تو دل مطمئن ہوا کہ اس ادارے کی کارکردگی محض باتیں ہی نہیں ایک قومی مثال بھی ہے۔
خیال آیا کہ احمد یار حراج کو بتاؤں کہ موٹروے پولیس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں یونیورسٹی آف سرگودھا جیسے معیاری تعلیمی ادارے بھی ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔
پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو سرگودھا یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں اور موٹروے پولیس جیسے پبلک سروس اداروں کی وجہ سے ہی آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں ان کی ہمت افزائی کرنا ہوگی۔