اسلام آباد (طارق بٹ) ریفرنس دائر ہونے کی صورت میں ٹی ایل پی کی قسمت کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کرےگی۔ سپریم کورٹ میں دائرریفرنس میں آرٹیکل 17 کی شق 2 کے ساتھ دیگر قوانین بھی زیربحث آئیں گے۔ اگر حکام ریفرنس دائر کرتے ہیں تو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی قسمت کا فیصلہ حتمی طور پر سپریم کورٹ کرے گی، یہ اختیار وفاقی حکومت کو نہیں ہے۔ اس طرح کے ماضی میں دائر کیے گئے ریفرنسز میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے مختلف رہے ہیں۔ 1964 میں صدر ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی تھی جسے سپریم کورٹ نے ختم کردیا تھا۔ اسی طرح 1976 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی عائد کی تھی جسے اعلیٰ عدلیہ نے برقرار رکھا تھا۔ اس حوالے سے جب دی نیوز نے معروف وکیل کاشف ملک سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو آئین کے آرٹیکل 17 (2) کے تحت ریفرنس کا فیصلہ کرنے کا اختیار دینے سے سیاسی جماعتوں کو اس لحاظ سے تحفظ ملتا ہے کہ وہ صرف کسی ایگزیکٹیو حکم نامے سے تحلیل نہیں ہوسکتیں بلکہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد ہی ایسا ممکن ہے۔ انہوں نے ایک تیسرے کیس کی مثال بھی دی جو کہ ایم کیو ایم سے متعلق تھا۔ 2011 میں کراچی کی امن و امان سے متعلق صورت حال پر سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران پانچ رکنی بنچ کا کہنا تھا کہ جہاں تک ایم کیو ایم پر پابندی لگائے جانے کا تعلق ہے جس کی بنیاد فراہم کردہ مواد اور معلومات ہے جو ہم تک پہنچائی گئی، اس کے علاوہ سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا بیان جسے غلام قادر جتوئی نے فراہم کیا۔ اس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ان تمام استثنا کی بنیاد پر عوامی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جو کہ لازم تھا اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ متنازعہ حیثیت میں بحال ہو۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے ریفرنس میں آرٹیکل 17 کی شق 2 کے ساتھ دیگر قوانین بھی زیربحث آئیں گے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہر شہری جو پاکستان میں کوئی سروس نہیں کررہا اسے سیاسی جماعت بنانے اس کا رکن بننے کا حق ہے تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ اس پر کوئی قانونی پابندی عائد نا ہو جو کہ پاکستان کی سالمیت یا خودمختاری سے تعلق رکھتی ہو اور اگر وفاقی حکومت یہ اعلان کرے کہ کوئی سیاسی جماعت پاکستان کی سالمیت یا خودمختاری کے خلاف کام کررہی ہے تو وفاقی حکومت اس اعلان کے 15 روز کے اندر یہ معاملہ سپریم کورٹ بھجوائے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ الیکشنز ایکٹ 2017 بھی سیاسی جماعت کی تحلیل کے لحاظ سے بات کرتا ہے۔ اس کی سیکشن 213 میں کہا گیا ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت تحلیل ہوتی ہے تو اس کا کوئی رکن اگر پارلیمنٹ کا رکن ہے، یا صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کا رکن ہے تو وہ نااہل ہوجائے گا۔ اور الیکشن کمیشن ایسے ارکان کا نام شائع کرے گا جو نااہل ہوں گے۔ اسی طرح سیکشن 212 میں کہا گیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت کسی ریفرنس کی بنیاد پر مطمئن ہو کہ کوئی سیاسی جماعت بیرونی عطیات پر چل رہی ہے یا اس کے قیام کا مقصد پاکستان کی سالمیت یا خودمختاری کے خلاف ہے اور وہ دہشت گردی میں ملوث ہے تو وہ نوٹیفکیشن کے ذریعے اس کا اعلان کرے گی۔ جس کے 15 روز کے اندر یہ معاملہ سپریم کورٹ بھجوایا جائے گا جو اس معاملے کا حتمی فیصلہ کرے گی۔ غیرملکی عطیات والی سیاسی جماعت کا مطلب ہے کہ ایسا ادارہ جس کا قیام یا تشکیل کسی غیرملکی حکومت یا سیاسی جماعت نے رکھا ہو اور اس کا تعلق کسی غیرملکی حکومت یا سیاسی جماعت سے ہو یا وہ کوئی امداد، مالی عطیات یا ایسا کچھ کسی غیرملکی حکومت یا سیاسی جماعت سے وصول کرتی ہو، یا اس کے فنڈز کا کوئی حصہ غیرملکی شہریت کے حامل افراد سے موصول ہوا ہو۔ آرٹیکل 17 (2) کا استعمال شازونادر ہی ہوتا ہے۔ ماضی بھی بہت پہلے اس کا استعمال اس صورت ہوا تھا جب اس وقت کی سیاسی جماعتوں نے حکومتوں پر تنقید کی تھی۔ اب اس کا استعمال ٹی ایل پی کے خلاف ہورہا ہے، جو کچھ عرصہ قبل ہی منظرعام پر آئی تھی اور اس کے بعد سے اس نے کم از کم تین مرتبہ پرتشدد واقعات کے ذریعے پاکستان کے نظام کو مفلوج کیا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اس نے 2018 کے عام انتخابات میں 20 لاکھ سے زائد ووٹ لیے جو کہ ان ووٹوں سے کہیں زیادہ تھے جو کئی دہائیوں سے موجود سیاسی جماعتوں نے لیے تھے، یہاں تک کے بہت سے حلقوں میں ٹی ایل پی تیسرے نمبر پر آئی تھی۔