• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں پہلے صوبائی مینجمنٹ سروس (پی ایم ایس ) جس طرح پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (سابقہ ڈی ایم جی ) کے ساتھ برسرپیکار ہے اسی طرح اب صوبائی پولیس سروس بھی پولیس سروس آف پاکستان سے اپنے قانونی اور آئینی حقوق لینے کیلئے میدان میں آ گئی ہے ۔صوبائی پولیس سروس والے وہ لوگ ہیں جو پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے اے ایس آئی، سب انسپکٹر اور انسپکٹر بھرتی ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں نے بڑی جرات اور دلیری کے ساتھ پی ایس پیز سے اپنے حقوق مانگنے کی جسارت تو کر لی ہے لیکن ان حقوق کے حصول کی راہ بڑی کٹھن ہے ۔کامیابی کے امکانات تو بہرحال ہیں لیکن کس حد تک ہیں؟ کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔پہلے ایک نظر ان کے ساتھ زیادتیوں اور ان کےحل پر ڈالتے ہیں۔ پنجاب میں مشرف دور کے دوران بنائے جانے والے قانون پولیس آرڈر 2002سے قبل کانسٹیبل، اے ایس آئی اور سب انسپکٹر بھرتی ہونے والے گریڈ 20 اور 21 تک ترقی پا جاتے تھے ۔ اس حوالے سے بڑی مثالیں دیکھیں تو غلام اصغر خان، ریٹائرڈ ڈی آئی جی رانا واسع، حامد مختار گوندل (ڈی آئی جی ) ریٹائرڈ، سابق آئی جیز پنجاب چوہدری امین اور چودھری افتخار کے نام نمایاں ہیں۔ ان افسران نے جونیئر رینکس میں ملازمتیں اختیار کیں اور کم سے کم لیکن مناسب تعلیمی قابلیت ہونے کے باوجود یہ افسران اعلیٰ عہدوں تک ترقی پانے میں کامیاب ہوئے۔یہ وہ وقت تھا جب صوبائی سطح پر ترقیوں کے فیصلے ہوتے تھے اور محکمہ داخلہ پنجاب کا پولیس ونگ ترقیاں دینے کا مجاز تھا۔لیکن اب حالات یکسر مختلف ہیں، صوبائی پولیس سروس میں شمولیت کے طریقہ کار کو انتہائی نچلی سطح تک تبدیل کر دیا گیا ہے ۔اس وقت ایک سپاہی بھرتی ہونے والا بھی ماسٹرز ڈگری کا حامل ہوتا ہے ۔انسپکٹر، سب انسپکٹر اور اے ایس آئی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی ہو رہے ہیں۔اگرچہ کہ ان کی ترقیوں کے حوالے سے بنائے گئے ڈیزائن، سرخ فیتے اور غیر قانونی امتیازی سلوک اور قوانین میں مختلف قسم کی رکاوٹیں حائل ہیں ۔ایسے رولز بنائے گئے ہیں کہ آئین پاکستان میں وضع کردہ یکساں ترقی کے مواقعوں سے بھی انہیں محروم رکھا گیا ہےبلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں ہو گا کہ صوبائی پولیس سروس میں کانسٹیبل سے لیکر انسپکٹر بھرتی ہونے والوں میں ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل اور پی ایچ ڈی اور انجینئرنگ کی ڈگریاں رکھنے والے یہ لوگ پولیس سروس آف پاکستان سے شاید زیادہ اہل ثابت ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں صوبائی پولیس سروس کے تمام ڈی ایس پیز کی ترقیاں سنٹرل پروموشن بورڈ کیلئے صوبائی حکومت کی سفارشات پر ہوتی تھیں۔پولیس سروس آف پاکستان کے اے ایس پیز اور صوبائی پولیس سروس کے ڈی ایس پیز کو ترقیوں کے وقت یکساں سلوک اور مواقع فراہم کئے جاتے تھے یہی وجہ تھی کہ صوبائی پولیس سروس میں بھرتی ہونے والے بھی گریڈ 21تک ترقی پا جاتے تھے ۔پولیس آرڈر 2002کے آرٹیکل 165(ای ) کے تحت صوبائی پولیس سروس کیلئے ترقیوں کی مزید راہیں کھولنے کی بجائے ENCADREMENTکا نام دیکر ان کے حقوق سلب کر لئے گئے۔پولیس آرڈر 2002کے رولز آف پروسیجر کے سب رول 7کے سیریل 1013پولیس سروس آف پاکستان کے لبادے میں صوبائی پولیس سروس کے ساتھ بغیر کسی قانونی جواز کے جو امتیاز برتا گیا اس کا نقصان اور اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ پولیس آرڈر 2002کے مطابق ایس پی کے عہدے تک ترقی پانے والا صوبائی پولیس سروس کے افسر کو اب پی ایس پی کیڈر میں شامل کر لیا جاتا ہے لیکن ظلم کی انتہا یہ ہے کہ پہلے تو طاقتور پی ایس پی افسران اس کی پی ایس پی کیڈر میں شمولیت کا کیس تیار کرنے میں 4سے 5سال لگا دیتے ہیں اور پھر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اس کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے میں 3سے 4سال لگا دیتا ہے کیونکہ وہاں بھی تو پی ایس پیز کے بھائی لوگ بیٹھے ہیں ۔یوں صوبائی پولیس سروس کا افسر ایس پی ہونے کے بعد 8سے 9سال میں پی ایس پی کیڈر حاصل کر پاتا ہے ۔اسی دوران اکثر اس کی ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے یا پھر وہ زیادہ سے زیادہ گریڈ 19میں ترقی پا کر ایس ایس پی کے عہدےتک پہنچ کر ریٹائر ہو جاتا ہے ۔پنجاب پولیس میں گریڈ 19سے 21تک کے افسران کی کمی کا فائدہ پی ایس پی افسر اٹھاتے ہیں کیونکہ صوبائی پولیس سروس کے افسراوں کو ان گریڈوں تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر پولیس سروس آف پاکستان کے گریڈ 18کے جونیئر افسران کو گریڈ 19کی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) کی سیٹ پر لگا دیا جاتا ہے۔آئین پاکستان کا آرٹیکل 240(B)یہ کہتا ہے کہ صوبائی معاملات میں صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے تحت صوبائی افسران گریڈ 19، 20اور 21پر تعینات ہونےکے اہل ہیں۔ صوبائی افسروں کی ترقیاں روک کر وفاقی افسران کی صوبوں میں تقرریاں آئین پاکستان کی سراسر خلاف ورزی ہے۔پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ نے اسمبلی میں صوبائی پولیس افسران کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز بلند کی ہے ۔اس مسئلے پر پنجاب اسمبلی کی طرف سےبنائی گئی کمیٹی کے متعدداجلاس بھی ہو چکے ہیں ۔صوبائی پولیس سروس کے ایس ایس پی عباس اور ایس پی طاہر نے اپنے تحفظات اور حق تلفیوں کے حوالے سے اراکین اسمبلی کو آگاہ کیا ہے۔ پنجاب پولیس بلکہ پی ایس پیز کے نمائندے سے ایڈیشنل آئی جی علی عامر نے تسلیم بھی کیا ہے کہ صوبائی پولیس کے مطالبات جائز ہیں لیکن اس کے باوجود یہ معاملہ سست روی کا شکار ہے ۔

تازہ ترین