• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی، حکومتی ارکان کے چہروں پر افسردگی، ندامت کے آثار

اسلام آباد (فاروق اقدس) قومی اسمبلی کے اجلاس میں دو روز کے وقفے کے بعد شروع ہونے والی کارروائی بھی سپیکر اسد قیصر کو ایوان میں ہونے والے اپوزیشن کے احتجاج کے باعث اچانک ہی ختم کرنا پڑی

تاہم یہ احتجاج روایتی ہرگز نہیں تھا بلکہ گزشتہ دنوں ملک بھر میں ختم نبوت کے معاملے پر آپؐ کے عقیدت مندوں اور وارفتگان پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بہیمانہ تشدد اور شقی القلبی کے واقعات کے خلاف تھا اور امر واقعہ ہے کہ حکومتی نشستوں پر اجلاس کے دوران تمام وقت خاموشی چھائی رہی اور متعدد حکومتی ارکان کے چہرے غمازی کر رہے تھے کہ وہ حکومتی نشستوں پر تو ضرور بیٹھے ہیں

لیکن انکے جذبات اور دل کی دھڑکنیں اپوزیشن کی نشستوں پر ہونے والی تقاریر کے ساتھ ہیں، بیشتر ارکان کے چہروں پر افسردگی اور ندامت بھی دیکھی جاسکتی تھی جو فطری بات تھی حکومت سے وابستگی رکھنے والے بعض ارکان جو ایوان میں خاموش تھے

تاہم وزیر مملکت علی محمد خان نے اس مشکل صورتحال میں حکومت کا دفاع کرنے کی بھرپور کوشش کی تاہم ان کا بیانیہ حکومت کے موقف سے من وعن مماثلت نہیں رکھتا تھا شاید یہی وجہ تھی کہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ علی محمد اپنی حکومتی ذمہ داریوں سے مستعفی ہوگئے ہیں اور اس افواہ نے اتنی تیزی سے گردش کی کہ انہیں باضابطہ طور پر انہیں اس افواہ کی تردید کرنی پڑی

حکومتی ارکان کو اپنے دلی جذبات کا اظہار اور ’’ پارٹی ڈسپلن‘‘ کی مجبوریوں پر کف افسوس ملتے بھی دیکھا گیا جن کے تیور دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ کسی وقت بھی ایوان میں ’’ پارٹی ڈسپلن‘‘ سے بغاوت کرتے ہوئے اور اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ناموس رسالتؐ کے حوالے سے ایک عاشق رسول کی حیثیت سے ایوان میں پیش ہوسکتے ہیں، ایوان میں سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے اپنی تقریر میں جو نکات اٹھائے اور جس انداز میں اپنا اور اپنی پارٹی کا موقف بیان کیا اس پر یہ تبصرہ خاصا موزوں تھا کہ۔ ’’ پیپلز پارٹی والوں کی کارکردگی اپوزیشن میں زیادہ بہتر ہوئی ہے‘‘ ۔

پیر کو ہونے والے اجلاس میں سب سے زیادہ مخالفانہ صورتحال کا سامنا وزیر داخلہ کی حیثیت سے شیخ رشید کو کرنا پڑا، حالیہ صورتحال کے حوالے سے وہ ایوان میں پالیسی بیان دینے آئے تو انہیں اپوزیشن ارکان کے احتجاج اور سخت جملوں کا سامنا کرنا پڑ۔

تازہ ترین