• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ…شہزادعلی
ادیب اور شعرا موسم بہار کو آزادی سے بھی تشبیہ دیتے ہیں ، یہ قانون فطرت ہے کہ ہر خزاں کے بعد بہار آتی ہے، موسم خوشگوار اور خوبصورت ہوجاتا ہے، فضا معطر ہو جاتی ہے ، مگر نہ جانے، کشمیری عوام کے لئے آزادی کی بہار کا موسم کب آئے گا، وہ دن کب طلوع ہوگا کہ جب منقسم ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے درمیان میل ملاقات کیلئے کوئی پابندی، کوئی سرحد باقی نہیں رہے گی، مہاجرین جموں کشمیر واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے، کشمیر کی جغرافیائی وحدت پھر سے بحال ہو گی اور کشمیر میں ماضی کی طرح ایک بار پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں پر بسنے والے تمام افراد قطع نظر مذہب اور عقائد باہم مل کر اکٹھے رہ سکیں گے اور کشمیر ایک بار پھر اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت نظیر کی صورت بنا رہے گا، مسلمانان کشمیر پر مظالم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیں گے، کشمیری مسلمانوں کی بہو بیٹیوں کی عفتیں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں گی، تمام سیاسی اسیر رہا کر دیے جائیں گے، ان پر عید پڑھنے کی پابندیوں کو ختم کر دیا جائے گا، کشمیر کے بچے درسگاہوں میں واپس لوٹ سکیں گے، کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا پل بن جائے گا، ریاست کے تمام حصوں میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا، کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی سیاحوں کا مرکز ہوگا کشمیر میں بہار کی امید پاکستان اور بھارت کے حالیہ انگیجمنٹ کے تناظر میں کی جارہی ہیں بھارت جو پہلے کسی تیسرے فریق کی ثالثی کے رول کو ماننے سے انکاری رہا ہے، متحدہ عرب امارات کے ثالثی کے کردار کی تصدیق سے واضع ہوتا ہے کہ اب صورتحال میں کوئی تبدیلی آرہی ہے اور ویسے بھی ہمیں امید کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ملک کے ایک انگریزی اخبار میں ایک قلمکار نے لکھا ہے کہ بہار کے ساتھ پگھلاؤ آتا ہے۔پاک، بھارت تعلقات میں بہتری کی طرف حالیہ عارضی اقدامات خوش آئند ہیں۔ جنگ بندی کے اعلان کو دو ماہ ہوئے ہیں اور انڈس واٹر کمیشن کے اجلاس کو کئی ہفتوں کا عرصہ گزر گیا ہے،متحدہ عرب امارات کے ثالثی کردار کی تصدیق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امن پراسیس کی بنیاد ہے، یہ ہمارے تنازعات سے دوچار خطے کے لئے راحت بخش ہونا چاہئے، چین اور امریکہ کے تعلقات بدتر ہونے کے پس منظر میں بھارت پاکستان دشمنی گہری ہونے کی راہ پر گامزن ہے۔ چین سی پی ای سی کو اسٹریٹجک قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور حالیہ دھچکے کے باوجود یہ اقدام پاکستان کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ دریں اثنا ، ہندوستان اور امریکہ غیر معمولی قریبی دوطرفہ تعلقات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جو Quad — the strategic partnership کی نئی دہلی کی رکنیت سے ہے جو چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کے مابین اسٹریٹجک شراکت داری کے ذریعہ مزید تقویت بخش رہے ہیں، اس میں مزید اضافہ یہ ہے کہ گذشتہ جون میں وادی گیلوان میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد ہندوستان اور چین کے درمیان طویل عرصے سے فوجی تعطل رہا تھا اور حالیہ وقوع اس سے بھی زیادہ غیر متوقع لگتا ہے، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بھارت اور پاکستان کے کٹھ پتلی شو میں امریکہ اور چین کے وسیع تر تناؤ کے تناظر میں بحث کرتے ہیں البتہ استحکام کا راستہ ہے۔ استدلال یہ ہے کہ دونوں طاقتیں پراکسی جنگ کا خطرہ مول لینے کے لئے بہت زیادہ داؤ پر لگ رہی ہیں اور یہ کہ تنازعات کو بڑھنے سے روکنے کے لئے بیجنگ اور واشنگٹن بالترتیب اسلام آباد اور نئی دہلی پر دباؤ ڈالیں گے لیکن ہمسایہ ممالک جو سرحدیں شئیر کرتے ہیں اور جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھتے ہیں ان کے لیے یہ زیادہ پیچیدہ ہے، اس لیے بہتر پاک، بھارت تعلقات کا مطلب ایک بہتر علاقائی نتیجہ،ریجنل آئوٹ کم ہے، ہماری تیزی سے ملٹی پولر ورلڈ پاکستان اور بھارت کے لئے بات چیت میں شامل ہونے اور معاشی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے نئے مواقع کی پیش کش کرتی ہے، اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے بیک چینل کی مصروفیات کا تازہ ترین دور بروکرڈ کیا ہے،اسی طرح جائزہ لگایا گیا ہے کہ دوسرے ممالک جیسے روس بھی بیک وقت انگیجمنٹ کی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہیں جو باہمی دلچسپی کے شعبوں سے کارفرما ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے مزید بین الاقوامی کریکٹرز لگائے گئے ہیں اور انھیں بااختیار بنایا گیا ہے۔ پھر، امریکہ کی افغانستان سے متعلق پالیسی شفٹ کی خبروں کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد اسلام آباد کی ترجیح ہوگی۔یعنی افغانستان کے امور میں تبدیلی بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات امید کے ساتھ باہمی تعاون کے لئے مزید مواقع پیدا کریں گے جس کا نتیجہ افغانوں اور خطے کے بہتر نتائج کا باعث بنے گا اس تجزیہ کے مطابق بھارت کے ساتھ مستحکم تعلقات کے بغیر پاکستان کا نیا جیو اکنامک ایجنڈا کام نہیں کرسکتا اور اسی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی طرف سے اس جانب اشارہ کیا گیا ہے ہمارے خیال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سات عشروں سے زیادہ عرصہ پر محیط تصفیہ طلب مسائل حل کرنے کی بیک ڈور کوششیں کشمیری عوام کے لئے اپنی جاری جدوجہد کو تیز تر کرنے کا تقاضا کرتے ہیں خاص طور پر اوورسیز کشمیری ایک کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں وہ خارجہ محاذ پر اس بات کو اجاگر کریں کہ بھارت کو چاہئے کہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ٹیبل ٹاک کرے لیکن اس سے پہلے وہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ کرے۔ اور 5اگست کے اقدامات پر نظرثانی کرے اور ایسے اقدامات بلاتاخیر اٹھانے جن سے امن کا عمل آگے بڑھ سکے۔
تازہ ترین