• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے مطا لعہ، ذکرِ الٰہی، اور تقریروتبلیغ کے سوا والد ؒ کو کسی کام میں منہمک پایا ہو۔ باقی سب کام وہ اس نیت سے کرتے تھے کہ تازہ دم ہو کر پھر انہی مشاغل کی طرف لوٹ جائیںجو ان کے بزرگوں کا ورثہ تھا۔کم گھر ایسے ہوں گے جن میں اپنی کئی پیڑھیوں کا تذکرہ اس تواتر سے صبح شام ہوتا ہو۔میں نے بچپن میں والد صاحبؒ سے مولانا دائود غزنویؒ کے بارے سن رکھا تھا کہ ’’ابا جی انگریز کے خلاف آگ اگلتے تھے ۔ انہوں نے اپنی جوانی کے دس سال انگریزکی جیل کاٹی‘‘۔دادا جانؒ کی لائبریری کی سینکڑوں کتابوں پر ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے حاشیے کے باریک و لطیف نکات کا تذکرہ والد صاحبؒ کرتے ہی رہا کرتے تھے۔

میں نے اپنے پردادا امام عبدالجبار غزنویؒ کے بارے شبلی نعمانیؒ کا یہ فقرہ بھی بچپن میں سن رکھا تھا کہ ’’جب امام صاحبؒ اپنی زبان سے لفظ ’اللہ‘ کہتے ہیںتو بے اختیار جی چاہتا ہے کہ سر ان کے قدموں میں رکھ دیا جائے۔‘‘ اور والد صاحبؒ کے جدِ امجد حضرت عبداللہ غزنویؒ کو کس طرح کلمہ حق کہنے کی پاداش میں درے مار کر خاندان سمیت افغانستان سے جلا وطن کر دیا گیا۔ابو جی صحیح معنیٰ میں اپنے اجداد کے علم و فقر کے وارث تھے۔ حرف کی انتہائی تعظیم کرتے، میں نے انہیں جھک کر زمین سے کبھی کچھ اٹھاتے نہیں دیکھا، سوائے اس کاغذ کے جس پر کچھ لکھا ہوتا۔ کتابیں رکھنے میں حفظِ مراتب کا انتہائی خیال رکھتے، کتابوں کی سمت پائوں کرنا بھی بے ادبی شمار کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کا تانا بانا علم اور تصوف سے بُنا گیا تھا،دل کے برتن کو صبح شام مانجھتے رہنا، یعنی ذکرِ الٰہی ان کا طرزِ حیات تھا۔ نماز پڑھتے ہوئے ابو جی ایک حالت میں ہوتے تھے، لگتا تھا ان کا ریشہ ریشہ حضوری میں ہے اور انہیں کامل یقین ہے کہ ان کا خالق انہیں دیکھ رہا ہے۔ دلی کے معروف شیخ الحدیث میاں نذیر حسینؒ نے اپنے شاگرد عبداللہ غزنویؒ بارے کہا تھا ’’ عبداللہ حدیث ہم سے پڑھ گیا اور نماز پڑھنا ہمیں سکھا گیاـ‘‘۔ نماز کا یہ خشوع بھی ابو جی کا خاندانی ورثہ تھا۔

والد صاحبؒ ﷲ پر توکل میں مثالی تھے، وہ اپنی رضا کو اپنے خالق کی رضا میں یکسر مُدغم کر چکے تھے اور ان کے خالق نے ملال اور خوف کو ان کے دل سے اُچک لیا تھا۔ علّامہ اقبال اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ غزنویؒ حدیث کا درس دے رہے تھے، کسی نے مطلع کیا کہ آپ کا بیٹا فوت ہو گیا ہے، آپ نے یہ اندوہ ناک خبر سنی، ایک منٹ خاموش رہے، اور پھر درس دینے لگے۔ والد صاحب اپنے جدِ امجد کی تصویر تھے۔

دنیا سے ان کا دل پاک تھا، اماںجی اگر کبھی کہتیں کہ ہمیں اپنا گھر بنانا چاہئے تو ابو جی کہتے یہ مجھے زیبا نہیں، یہ حرکت میری سات پشتوں میں کسی نے نہیں کی۔ حلفاً کہہ رہا ہوں کہ میں نے کبھی ابو جی کی زبان سے لفظ ’پیسہ‘ نہیں سنا، میں نے انہیں کبھی جیب سے نوٹ نکالتے، کسی کو پیسے دیتے یا لیتے، یا نوٹ گنتے نہیں دیکھا۔ غالباً وہ اسے ایک ناخوشگوار عمل سمجھتے تھے۔ آلِ سعود بوجوہ خاندانِ غزنویہ کا احترام کرتے تھے اور جب ہمارے خاندان کے افراد حج پر جاتے تو اکثرشاہی مہمان ہوا کرتے۔ اس پس منظر میں جب والدؒ حج سے لوٹے تو ان سے ہمارے ایک عزیز نے سوال کیا کہ کیا آپ نے بادشاہ سے ملاقات کی، ابو جی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’میں تو وہاں بادشاہوں کے بادشاہ سے ملنے گیا تھا‘۔ توازن، اعتدال، ہرمسلک کے بزرگوں کی تعظیم، متنازع بات سے دوری، یہ ابو جی کی شخصیت کے بنیادی اوصاف تھے۔’ادب پہلا قرینہ ہے‘ ان کی زندگی کا منشور تھا، بارگاہِ الٰہی کا ادب، بارگاہِ رسالتؐ کا ادب، بزرگوں کا ادب، آدابِ مجلس۔ ایک سے زیادہ بار میں نے دیکھا کہ وہ منبر پہ خطبہ کے دوران کسی کو غیر ضروری حرکات کرتے دیکھتے تواس قدر بے مزا ہوتے کہ موضوع بدل کر اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتیں سننے کے آداب پرگفتگو شروع کر دیتے۔ ان کے نزدیک دین ادب اور نفاست کا نام تھا۔ابو جی کے دل سے حبُِ اہلِ بیت چھلکتا تھا۔امام حسینؓکی شہادت کا ذکر اکثر بھرائی ہوئی آواز میں کرتے۔

علم کا اپنا ایک بوجھ ہوتا ہے، علماء حضرات کی سنجیدگی اکثر یبوست میں بدل جاتی ہے، ابو جی کا معاملہ اس سے مختلف تھا بلکہ یوں کہیے کہ یک سر مختلف تھا۔ان کی نظر میں دین عشق کا معاملہ تھا، اور اسی زاویہ سے وہ دین سمجھایا کرتے تھے، اور پھر عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے سینکڑوں اشعار جو وہ بر محل، ایک عالمِ کیف میں پڑھتے رہتے تھے۔ جب ابو جی اورینٹل کالج میں پڑھاتے تھے تو ایک بار کسی مولوی صاحب نے حکام سے شکایت کی کہ ابوبکر غزنوی جیسا خوش شکل اور خوش وضع نوجوان جس جذب وسر مستی کے عالم میں شاعری پڑھاتا ہے وہ نوجوان طلبا و طالبات کے اخلاق کے لئے مضر ہے۔اپریل ۱۹۷۶ میں ابو جی انٹرنیشنل سیرت کانفرنس میں شرکت کے لئے پاکستان کے سرکاری وفد کے ہم راہ لندن میں تھے کہ سڑک عبور کرتے ہوئے ایک گاڑی سے ٹکرا کر شدید زخمی ہو گئے۔ ۲۴ویں اپریل کو ابو جی فوت ہو گئے۔ان کی عمر 49 برس تھی۔

ابو جی نے اپنے والدصاحبؒ کے جنازے پہ اژدھام کی تفصیل لکھ رکھی تھی۔ ابو جی کا جنازہ بھی اپنے اجداد جیسا تھا، ’ہزاروں انسانوں کا ہجوم، ایک کہرام بپا تھا، چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھے گئے، شیدائی کندھا دینے کے لئے چارپائی کی طرف یوں لپکتے تھے جیسے پتنگے شمع دان پہ گرتے ہیں۔ـ‘

مجھے یقین ہے کہ ابو جی کے آبا نے جنت کے دروازے پہ آ کر ان کا استقبال کیا ہوگا، انہیں سینے سے لگایا ہوگا، انکی پیشانی کو چوما ہوگا، کیونکہ ابو جی نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس، اپنے خون کا ایک ایک قطرہ، اُسی راستے میں کھپا دیا جو اُن کے بزرگوں کا راستہ تھا۔

تازہ ترین