کچھ دنوں سے محسوس ہو رہا تھا جیسے پی ڈی ایم کے خلاف سازش پک رہی ہے کیونکہ پی ڈی ایم جن مقاصد کیلئے بنایا گیا تھا، اس مقصد کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ پاکستان پیپلزپارٹی ایم آر ڈی کا حصہ بھی رہی اور اے آر ڈی کا بھی۔ ایم آر ڈی کی تحریک کا مقصد جمہوریت اور آئین کی بحالی تھا یہی مقصد اے آرڈی کا رہا۔ میرا مقصد کسی کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیں ہے مگر صاحب ہم نے اپنے کسی اتحادی کی سیاسی کمزوری پر بھی اسے نیچا دکھانے کی کوشش کبھی نہیں کی تھی کیونکہ ہم اے آر ڈی کے پلیٹ فارم کو کمزور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اب کوئی کتنے بھی دعوے کرے مگر سچ یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کیلئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری ایک سال سے کوشش کرتے رہے تھے۔
ہمارا مقصد یہ تھا کہ پارلیمنٹ سے گھس بیٹھیے کو نکالیں جس کیلئے پارلیمان میں مزاحمت اور پارلیمان سے باہر عوامی سطح پر عوام میں سلیکٹڈ حکومت کے خلاف راہ ہموار کرنا تھی۔ ہمارا مقصد پارلیمان کی پچ اکھاڑنا نہیں تھا بلکہ پارلیمان کی پچ پر سلیکٹڈ وزیراعظم کو آؤٹ کرنا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ جنگ کے دوران اپنا محفوظ مورچہ یعنی پارلیمان کو چھوڑنے کا فیصلہ کس کے اشارے پر کیا گیا جس کیلئے پی ڈی ایم کا کندھا استعمال کیا جا رہا تھا جو در اصل فضول مشق اور اپنے اوپر خودکش حملے کے مترادف ہے۔ ہم تو پارلیمنٹ سے سلیکٹڈ کو نکالنے کیلئے چلے تھے ، نہ کہ اس کیلئے میدان کھلا چھوڑنے !
پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست ہمیشہ یہ رہی ہے کہ ہم اپنے مخالف کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرتے ہیں، جی ہاں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو عملی سیاست میں آئے تین سال ہو رہے ہیں مگر ان کی ابتدائی سیاسی پرورش ان کی عظیم والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے کی تھی ، دنیا اس وقت حیران ہوگئی تھی جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنی عظیم والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے سوئم پر ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کی بات کی تھی جو اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ لیڈر ہمیشہ جنم لیتے ہیں۔ ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے اس شخصیت کو بھی شامل اقتدار کیا تھا جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے قتل کا شبہ ظاہر کیا تھا، یہ طعنہ دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے آئین کی اصل صورت میں بحالی کیلئے کتنے بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا تھا ، یہ صدر آصف علی زرداری کی قائدانہ صلاحیت تھی کہ جنرل پرویزمشرف کو ایواں صدر چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ جناب آصف علی زرداری کے مقاصد عظیم تھے، انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے صوابدیدی اختیارات پارلیمان کے سپرد کرکے پارلیمان کو مضبوط اور بااختیار بنایا صوبوں کو خود مختاری دی صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ دیا اور تو اور اگر میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے تو یہ بھی صدر آصف علی زرداری کے مرہون منت۔ اگر آئین کو اصل صورت میں بحال نہ کیا جاتا تو کیا میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن پاتے ؟ ہم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے افکار پر ثابت قدم رہنے والے سیاسی کارکن ہیں جس نے فرمایہ تھا مشکلات آسان نہیں ہوتیں مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں، ہم کسی اور سے یہ تقاضا بھی نہیں کرتے کہ وہ اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اٹھائیں، پاکستان ہمارے لئے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کی امانت ہے کیونکہ انہوں اس ملک کی دوبارہ تعمیر کی تھی ، جمہوریت اس لئے عزیز ہے کیونکہ اس کی خاطر ہم نے آگ اور خون کے دریا عبور کئے ہیں، پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں، پارلیمان چھوڑنے کا مطلب تو یہ ہے کہ ایک بار پھر آئین کو مسخ کرنے کی سازش کامیاب ہو۔ جن کو اس کھیل کا حصہ بننا ہے بن جائیں، کل نہیں آج پارلیمنٹ چھوڑ دیں۔
آج ملک میں آمریت نہیں ہے ایک کٹھ پتلی راج ہے بلکہ اگر ملک اور حالات آپ سے ڈٹے رہنے کا تقاضا کرتے ہیں تو خود میں گرم زمین پر پاؤں رکھنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ میرے بھائی سینئر صحافی کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا یہ قول ضرور یاد ہوگا ’’میں عوام پر اپنی ،اپنے بیٹوں اور بیٹی کی جان قربان کروں گا‘‘ اور ان کا قول سچ ثابت ہوا ۔ آج گڑھی خدا بخش بھٹو کا قبرستان جمہوریت کے شہیدوں سے آباد ہے اور وہاں سے خون کی سرخی لئے جمہوریت کا سورج طلوع ہوتا ہے ، سینیٹ میں اپنی برتری کے بنیاد پر پیپلزپارٹی نے سید یوسف کو قائد حزب اختلاف بنیایا تو پی ڈی ایم کے اندر طوفان برپا ہو گیا ۔
شاعر نے بھی ایسے حالات پر خوب کہا تھا کہ
جب گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)