پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی یہ سلوگن پولیس تھانوں اور ایس ایس پی سمیت اعلیٰ پولیس افسران کے آفس کی زینت بنا ہوتا ہے اور پولیس کی جانب سے عوام کی مدد کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں ، لیکن بھلا ہو انگریزی قانون کا کہ جس میں مجرم کو قانون کا دوست قرار دے کر تمام مراعات مجرموں کا مقدر بنا دی گئی ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ مظلوم کو معصوم ثابت کرنے کے لیے تمام تر جدوجہد خود کرنا ہوتی ہے۔
اس بارے میں صورت حال یوں ہے کہ بڑے سے بڑے جُرم میں ملوث مجرم کو قانون کی جانب سے وہ سب مراعات ملتی ہیں، جو کہ مظلوم کا حق ہونا چاہیے، اس بارے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قتل کے مجرم کو پولیس کی جانب سے جب تک اس کے خلاف تمام تر ثبوت حاصل ہو جائیں، گرفتاری کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک ریٹائرڈ اعلیٰ پولیس افسر کے مطابق علاقے کے افراد سمیت پولیس کو بھی علم ہوتا ہے کہ اس شخص نے قتل کیا ہے، لیکن پرچہ درج کئے، بغیر قاتل کو گرفتار کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر مجرم کو جس کے متعلق پورا یقین ہو اور شہادتیں بھی موجود ہوں کہ اس شخص نے یہ جُرم کیا ہے، اگر اس کو پکڑ کر تھانے لاکر بٹھایا جائے، جو مجرم کے اہل خانہ کی جانب سے عدالت میں غیر قانونی حراست کی درخواست دے کر تھانے پر مجسٹریٹ کا چھاپہ لگوایا جاتا ہے اور اگر تھانے سے اس شخص کی برآمدگی ہوجائے تو پولیس افسر کی شامت آجاتی ہے ۔
اس صورت میں پولیس اس مجرم کو پرائیویٹ جگہ پر رکھ کر تفتیش کرتی ہے اور اس سے جرم کا اقرار کرواکر عدالت سے ریمانڈ لینے کی کوشش کرتی ہے اور اس طرح ایک مجرم سے جرم الگوانے کے لیے پولیس کے ہزاروں روپے خرچ ہوجاتے ہیں، جب کہ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اس مقدمے میں افسران بالا کا دباؤ ہوتا ہے کہ مجرم کے خلاف کارروائی کی جائے ، اس سلسلے میں ایسی کئی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، جب کہ مجرموں کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ وہ جرم کااقرار کرنے میں پولیس کی چیخیں نکلوادیتے ہیں۔
ایک ایسا ہی دل چسپ واقعہ سکرنڈ تھانے میں پیش آیا، جہاں پولیس نے چوری کے الزام میں ایک عادی چور کو پکڑا، جس نے کسی بااثر کے گھر کا مال و اسباب سمیٹ لیا تھا اور اس چوری کی برآمدگی پولیس افسران کی ملازمت سے مشروط تھی، کیوں کہ اگر یہ چوری برآمد نہ ہوتی، تو کئی پولیس افسران کی ملازمت و ترقی داؤ پر لگ جاتی ۔اس واقعہ کے تفتیشی افسر نے جنگ کو بتایا کہ پولیس نے چور پکڑا ،پاؤں کے نشانات دیکھنے والے ماہر نے تصدیق کردی کہ یہی چور ہے ۔
تاہم چور تھا کہ اس چوری کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، سخت گرمیوں کے دن تھے اور تھانے میں موجود ہر سپاہی نے اپنی طبعیت کے مطابق چور کی پٹائی کی تھی، لیکن چور تھا کہ ٹس سے مس نہیں ہورہا تھا اور اس کا مسلسل کہنا تھا کہ یہ چوری اس نے نہیں کی ہے اور جب تھانے والے اس کی پٹائی کرکے ہلکان ہوگئے، تو چور کو پولیس پر ترس آیا اور اس نے کہا کہ میں اس چوری کے بارے میں بتاتا ہوں، لیکن شرط ہے کہ آپ مجھے میٹھی لسی کا جگ پلائیں۔
پولیس اہل کار جو چور کو مار مار کر تنگ آچکے تھے، دوڑ کر لسی کا جگ خوب برف ڈال کر خوشی خوشی لائے کہ یہ چوری کا اقرار کرلے گا اور ہماری جان چھوٹ جائے گی، لیکن ہوا کیا۔چور نے لسی پی کر لمبی ڈکار لی اور پولیس افسران کی جانب فاتحانہ انداز میں دیکھ کر کہا کہ آپ مجھ سے چوری کے بارے میں اقرار کروانا چاہتے ہیں، میں نے یہ لسی کا جگ آپ کے سامنے پیا ہے، آپ لو گ پہلے مجھ سے یہ منوا لیں کہ میں نے یہ لسی کا جگ پیا ہے، پھر میں آپ کو مان جاؤں گا ۔اس جواب پر پولیس افسران سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ جُرم کا ہونا ایک ممکنہ بات ہے، لیکن جرائم کی روک تھام کی ذمے داری صرف پولیس پر ڈال کر پُورا معاشرہ اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا، حالاں کہ یہ حقیقت ہے کہ پولیس تمام تر خرابیوں کے باوجود اپنے حصے سے زیادہ کام کررہی ہے ۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی شہید بینظیر آباد تنویر حسین تنیو نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صورت حال یہ ہے کہ ایکسیڈنٹ کی سب سے پہلے اطلاع پولیس کو ملتی ہے اور پولیس اہل کار ایمبولینس آنے سے قبل پہنچ جاتے ہیں، اپنے موبائلوں کے ذریعے زخمیوں اور نعشوں کی اسپتال منتقلی کا فریضہ انجام دیتے نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا کام امن و امان کی صورت حال کو کنٹرول کرنا، امن پسند شہریوں کو تحفظ اور جرائم پیشہ افراد کو قانون کے مطابق سزا دلانا ہے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ صورت حال یہ ہے کہ ایس ایس پی آفس میں دن بھر گھریلو لڑائی جھگڑے ہوں یا زمین جائیداد کے معاملات ، سُود خوری کے فیصلے ہوں یا اسٹریٹ کرائم، ان تمام معاملات میں پولیس کو ہی نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے اور اس طرح ایک پولیس آفیسر بہ یک وقت قاضی، منصف اور قانون کے رکھوالے کا کردار ادا کررہا ہوتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری دُنیا میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم کو کنٹرول کیا جارہا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں آج بھی برطانوی دور حکومت کے قوانین کے ذریعے پولیس کو چلایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی ہو یا یورپ کو کوئی ملک کہیں بھی آپ کو پولیس کی بھاری نفری نظر نہیں آئے گی اور ان ممالک میں پولیس جوانوں کے بہ جائے سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے نگرانی کرتی ہے، کیوں کہ سی سی ٹی وی کیمرے کا نہ تو نیند آتی ہے اور نہ ہی اسے بیمار ہونا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کو کبھی چھٹی پر بھی نہیں جانا ہوتا۔
اس لیے ان ممالک میں جہاں سی سی ٹی وی کیمروں کی نگرانی ہے، وہاں جرائم کی شرح ہمارے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کے سقم کو ختم کرکے نئے قوانین بنائے جائیں جو حالات سے ہم آہنگ ہوں اور جرم اور مجرم دونوں کا خاتمہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکے۔