ہم انھیں تسلیم کریں یا نہ کریں، اچھا سمجھیں یا بُرا، لیکن اس دنیا میں زندگی کے اپنے تقاضے، اصول اور ضابطے ہیں۔ یہ دنیا ماقبل تاریخ و تہذیب کے ادوار سے مختلف ہے۔ اس درجہ مختلف کہ اس کا موازنہ کسی زمانے سے کرنا بے سود ہے۔ اس لیے کہ موازنے میں اختلاف و افتراق کی کتنی ہی بڑی فہرست کیوں نہ مرتب ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قاعدے اور اصول کی سطح پر اِکا دُکا ہی سہی قدرِ مشترک کی حیثیت سے کچھ عناصر بھی پیشِ نظر رہتے ہیں۔
آج کی دنیا اپنی نہاد میں اتنی الگ ہے اور اس کا بنیادی اصول (اگر اسے اصول کہا جاسکتا ہے) اس قدر الگ ہے کہ اسے گزرے ہوئے ادوار سے جوڑ کر دیکھنا ممکن ہے اور نہ ہی آنے والے زمانے میں اس کی بدلتی صورتوں کا تخمینہ لگایا جاسکتا ہے۔ عصرِ حاضر کا مزاج جس شے سے متعین ہورہا ہے، وہ ہے ہمہ گیر اور نمو پذیر مادّیت۔ اس عہد کے نظریات، افکار اور تصورات سے لے کر ایک عام آدمی کی زندگی تک ہر شے کی قدر و قیمت اب اسی کے تحت متعین ہوتی ہے۔
یوں دیکھیے تو مادّیت کوئی نئی چیز نہیں ہے، افراد، اقوام اور تہذیب کسی بھی سطح پر۔ یورپ کی تو نشاۃِ ثانیہ کی بنیاد کا پتھر ہی مادّیت کو تسلیم کیا گیا، لیکن گزشتہ صدیوں کی مادّیت اور بیس ویں صدی کے دوسرے نصف میں متشکل ہونے والی مادّیت کی حقیقت و معنویت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے۔ ان دونوں میں جوہری نوعیت کا فرق ہے۔ گزشتہ ادوار میں مادّیت فرد، سماج اور تہذیب سب کے لیے سامنے کے ایک ہدف کی حیثیت رکھتی تھی، یعنی خارجی مظہر تھی۔ اس کے اثرات بھی بڑی حد تک انسان اور سماج کے ظاہر میں نمایاں ہوتے تھے۔
جب کہ آج یہ حیاتِ انسانی کے لیے غایتِ اولیٰ کا درجہ اختیار کرچکی ہے اور اب خارجی نہیں، ایک داخلی محرک ہے۔ چناںچہ تہذیبی اقدار کی تشکیل اور ان کے مظاہر میں اب یہ قوتِ عاملہ و نافذہ کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے لیے ضابطۂ کار بھی مرتب کرتی ہے۔ آج فرد اور اس کے سماج میں مادّیت کے اثرات کا دائرہ کیا سے کیا ہوچکا ہے، اس کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس عہد میں انسانی زندگی اور تہذیبی اقدار کے لیے غیر مادّی اور غیر افادی اشیا کی ضرورت و اہمیت کا احساس تو رہا الگ، اب تو ان کا تصور تک مٹتا چلا جاتا ہے۔ ادب، فنونِ لطیفہ، بلکہ ثقافتی مظاہر میں بہت کچھ غیر مادّی ہوتا ہے اور یہ سب کچھ اس دور میں بری طرح داؤ پر لگا ہوا ہے۔
کارپوریٹ دنیا میں ادب کی ضرورت کا تو خیر سوال ہی کیا کہ اسے غیر مادّی ماہیت کی وجہ سے بے مصرف، بے کار چیز سمجھا جاتا ہے، بلکہ ضرر رساں بھی، کیوںکہ ادب انسان کو سوالوں سے دوچار کرتا ہے، اس کے اندر اضطراب پیدا کرتا ہے، اسے بندھے ٹکے سانچے سے نکالتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے اندر غیر مادّی اشیا، احساسات اور تصورات کی ضرورت اور اہمیت کا شعور پیدا کرتا ہے۔
یہ شعور مادّیت کی اصلیت کا پردہ چاک کرتا ہے اور انسانی زندگی کے وہ معانی دریافت کرتا ہے، جو مادّیت نظروں سے اوجھل کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے ادب عہدِ حاضر کے کارپوریٹ کلچر کے لیے سراسر ایک الجھن ہے۔ یہ اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، اس کے اہداف کو پورا نہیں ہونے دیتا۔ جب تک انسانی معاشروں میں ادب اور ایسی دوسری ثقافتی سرگرمیاں برقرار ہیں، دنیا کو پوری طرح کارپوریٹ کلچر کے سانچے میں ڈھالا نہیں جاسکتا۔
تاہم مادّیت کے تھنک ٹینکس نے سوچ بچار کے بعد اس الجھن کے حل کی خاصی حد تک راہ نکال لی ہے۔ اکیس ویں صدی کی ان ابتدائی دو دہائیوں میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ کلچر اور خصوصاً ادب کی نمود و نمائش کا اہتمام بڑے تواتر سے کیا جارہا ہے۔ آئے دن کہیں سیمینار ہورہے ہیں اور کہیں کانفرنس، کہیں ادیب کی آزادی اور اظہارِ رائے کے حق کے پرجوش مقدمات پیش کیے جارہے ہیں، کہیں اقلیتوں کی سیاسی حیثیت کا سوال اٹھایا جارہا ہے اور کہیں ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیے آواز بلند ہورہی ہے۔
اسی طرح کہیں ادیبوں کی پذیرائی ہورہی ہے، انھیں انعام و اعزاز سے نوازا جارہا ہے، کہیں اُن کے کام کے اکرام و استقبال کا اہتمام ہورہا ہے۔ اس سارے معاملے میں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ جس طرح ہورہا ہے، اس میں کسی نہ کسی سیاسی ایجنڈے، تہذیبی تفریق اور نظریاتی تقسیم کے ثبوت بھی کبھی ایک اور کبھی دوسری صورت میں سامنے آتے رہتے ہیں جو کچھ اور بڑے گمبھیر سوالوں سے ہمیں دوچار کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ ادب اور ادیب کارپوریٹ دنیا میں اچھے خاصے سکۂ رائج الوقت بنے ہوئے ہیں۔
تو کیا اس کارپوریٹ دنیا میں ادب کی اہمیت و ضرورت تسلیم کرلی گئی؟
نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ادب اور کارپوریٹ دنیا میں مغائرت کا یہ رشتہ کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ دونوں کی بنیاد میں جو تصورات کام کرتے ہیں وہ اپنے جوہر میں باہم متصادم ہیں۔ ان کا ملنا ایسا ہی ہے جیسے آگ اور پانی کا ایک ہونا۔ پھر یہ سب کیا ہے؟ پذیرائی اور فروغ کا یہ سارا کھیل تماشا دراصل ادب کو آختہ کرنے، بے ضرر بنانے کا عمل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ادب اور کلچر کو کسی راست اقدام سے ختم کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات کارپوریٹ دنیا کی مقتدرہ نے واضح طور پر جان لی ہے کہ تہذیب و تمدن کے اس سفر میں عام آدمی کا شعور بھی اس حقیقت کا حامل ہوچکا ہے کہ ادب اور کلچر ہی کسی تہذیب کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ یہ انسانی احساس و شعور کی تشکیل میں خاموش مگر بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے انہدام کا مطلب ہے تہذیبی آدمی کی موت۔
کارپوریٹ دنیا میں تہذیب اور اس کی اقدار کے لیے کوئی جگہ نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ براہِ راست تصادم کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ ایسی صورت میں کارپوریٹ دنیا کی سفاکی اور تہذیب دشمنی کا پردہ چاک ہوجائے گا۔ اس لیے یہ کام بڑی ہنرمندی سے بہ اندازِ دگر کیا جارہا ہے۔ چناںچہ صنفیت کی تقسیم، اقلیت کے حقوق، ٹرانس جینڈر کی سماجی حیثیت کے سوالوں سے لے کر ادب کے فروغ اور ادیبوں کی پذیرائی تک ان سارے میلوں ٹھیلوں کے عقب میں دراصل ادب و تہذیب کی روح کو ماند کرنے اور انسانی شعور و احساس کو متغیر کرنے والی اس کی قوت کو زائل کرنے کی خواہش و کاوش کارفرما ہے۔ تبھی تو بڑے بڑے ادارے لمبے چوڑے سرمائے کے ساتھ اس کام میں لگائے گئے ہیں۔
بڑے ملکوں کے سفارت خانے تیسری دنیا کے پس ماندہ ملکوں کے ادب اور ادیبوں کی پذیرائی اور سرپرستی کے لیے خطیر رقم کے عطیات آخر کسی ہدف کے حصول کے لیے ہی پیش کر رہے ہوں گے۔ مبادا کوئی غلط فہمی پیدا ہو، یہ بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ ہر کانفرنس، سیمینار یا فیسٹیول اس گھناؤنے کاروبار کا حصہ یا مظہر نہیں ہے، بلکہ وہ جو ہماری تہذیبی قدروں کے برخلاف کام کررہے ہیں وہ ہمارے کلچر، ادب اور تہذیب کی جڑیں کھودنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ہمارے قومی شعور، سیاسی تاریخ اور سماجی نظامِ اقدار کے بارے میں تشکیک اور منافرت کے رویے کو راہ دینے اور ابھارنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ تاہم یہ ایک بے حد سنجیدہ اور تفصیلاً غور طلب موضوع ہے۔ اسے بالاہتمام دیکھنے اور پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اسی تفتیش اور جستجو پر ہمارے ادیبوں کے ضمیر اور ادب کی بقا کا دارومدار ہے۔