لاہور ( نمائندہ جنگ ) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے نجی سوسائٹی کو ایل ڈی اے میں ریگولرائز نہ کرنے کیخلاف درخواست پر ڈی جی ایل ڈی اے احمد عزیز تارڑ سے6 مئی کو وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایل ڈی اے نے شہر کا بیڑہ غرق کردیا، نیب کے پکڑنے پر چیخیں نکلتی ہیں
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے معاملہ پر دوران سماعت وائس چیئرمین ایل ڈی اے پر سخت برہم ہوگئے، چیف جسٹس نےمحمد خان کی درخواست پر ریمارکس دئیے شہر کا بیڑہ غرق کردیا گیا، اپنے بندوں کو اتھارٹی میں بندر بانٹ کیلئے بٹھا دیا گیا ، جب نیب پکڑتا ہے تو بیوروکریسی کی چیخیں نکل جاتی ہیں
چیف جسٹس کی ڈی جی احمد عزیر تارڑ کی سرزنش کرتے استفسار کیا کہ ایل ڈی اے میں ایم پی ایز کی کیا ضرورت ہے؟ایم پی ایز کا یہ کام نہیں ہے کہ انکی سفارش پرکسی ہائوسنگ سوسائٹی کی منظوری دی جائے، ڈی جی صاحب سیاسی آدمی آپ کی گردن پر انگوٹھا رکھتا اور کالونی منظور کروا لیتا ہے، انکے آگے آپ کچھ نہیں کر سکتے، ڈی جی صاحب عام آدمی کی کالونی منظور ہی نہیں کی جاتی
وکیل ایل ڈی اےبتائیں کہ کمیٹی میں سیکرٹری فنانس کا کیا کام ہے؟ ایل ڈی اے کے دفتر میں بیٹھ کر بندر بانٹ ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے لاہور کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے، قبرستان کی کروڑوں کی زمین کو رہائشی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی، میرے رشتہ دار کو تم تحفظ دو، میں تمہارے رشتے دار کو تحفظ دں کی پالیسی پر عمل ہورہا ہے،ڈی جی صاحب جب آپ چلے جائیں گے تب نیب آپ کو پکڑے گی، عوام کیلئے آپ لوگ کوئی کام نہیں کرتے،پھر آپ لوگ کہتے ہیں کہ نیب کے ڈر کی وجہ سے ہم کام نہیں کر پاتے،آپ کے علم میں رشتہ داریاں نہیں ہیں؟ یا آپ کو لگوایا اسی کام کیلئے گیا ہے؟
چیف جسٹس نے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا ڈی جی صاحب مجھے رزلٹ چاہیے ،پہلی پراگرس رپورٹ 15 اپریل اور دوسری پراگرس رپورٹ 17 اپریل کو جمع کروائی تھی، ڈی جی صاحب مجھے یہ مخصوص بیورو کریٹک سٹائل نہیں چاہئے، میں نتائج کا قائل ہوں، مجھے بتائیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں کام ہوا،6 مارچ سے 21 اپریل تک آپ صرف دستاویزات تیار کرتے رہے؟
آپ نے صرف دستاویزات تیار کرنے کیلئے ڈیڑھ ماہ لگا دیا؟مجھے تاریخوں سے بتائیں کہ ٹیکنیکل کمیٹی نے کیا کام کیا؟چیف جسٹس نے چیئرمین ٹیکنیکل کمیٹی ایل ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا بااثر لوگوں کی سکیموں کو آپ نے منظور کیا،وقار اے شیخ ایڈووکیٹ نے موقف اپنایاکہ ایل ڈی اے کے حکام امتیازی سلوک کر رہے ہیں
وائس چیئرمین ایل ڈی اے کا مفادات کا ٹکرائو ہے، سیکرٹری ہائوسنگ خود ایک ڈویلپر ہے، اس نے ہی وائس چیئرمین ایل ڈی اے کو کمیٹی میں نامزد کیا ہے، لاہور کی 40 فیصد سکیمیں ایل ڈی اے کے زیر انتظام ہیں اور ایل ڈی اے کے خود کیلئے ہائوسنگ سکیم بنانے کیلئے کوئی رولز نہیں ہیں، ایل ڈی اے خود کیلئے رولز اس لئے نہیں بناتے کیونکہ اس سے ہائوسنگ سکیم کے پلان میں ترمیم نہیں کر سکتے
گردونواح میں ہاوسنگ سوسائٹیوں کو ایل ڈی اے میں ریگولرائز کیا گیا ہے،گردونواح میں سوسائٹیاں ہونے کے باوجودسوسائٹی کوگرین ایریا قرار دیا گیا ہے،درخواستیں دینے کےباوجود ایل ڈی اےسوسائٹی کو رہائشی قرار دے کر ریگولرائز نہیں کررہی
استدعا ہے کہ عدالت سوسائٹی کو رہائشی قرار دینے اور ایل ڈی اے کو ریگولرازڈ کرنے کا حکم دے، ایل ڈی اے وکیل عامر سعید راں نے موقف اپنایا کہ کمیٹی بن گئی، 5 مئی کو میٹنگ ہو جائے گی، سروے بھی ہو گیا اور متعلقہ اتھارٹی کے پاس معاملہ بھجوا دیا گیاہے۔