فلم ’’سسرال‘‘ کا شمار اپنے منفرد معاشرتی اور گھریلو موضوع کی بناپر پاکستانی سنیما میں ایک یادگار اور قابل فخر فلم کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ فلم 1962ء میں بنی تھی، لیکن یُوں لگتا ہے کہ یہ کہانی آج کی صورتِ حال پر لکھی گئی ہے ،بلکہ یُوں کہنا چاہیے کہ جب تک ہمارے یہاں شادی اور رشتوں کے لیے کاروباری لین دین، بے جا رسومات اور سودے بازی ہوتی رہے گی، یہ کہانی آئینہ بن کر ان تمام کرداروں کو ہمارے سامنے لاتی رہے گی، جو اس مذموم کاروبار میں ملوث ہیں۔
فلم ساز ہدایت کار اور مصنف ریاض شاہد نے اپنی اس سبق آموز اور اصلاحی کہانی میں لاہور کی تنگ گلیوں میں رہنے والے گھرانوں کا مقدمہ پیش کرکے ایک انقلابی قدم اٹھایا تھا۔ اندرون شہر لاہور کی پتلی پتلی، بل کھاتی ہوئی، نیم روشن، اور سہمی سہمی گلیوں کے رہنے والے زندہ دل انسانوں کی خوشیوں اور غموں کو جس انداز میں اس فلم کے ذریعے پیش کیا گیا تھا، وہ واقعی کسی کارنامہ سے کم نہیں۔
ریاض شاہد کا مقصد اس فلم کے ذریعے فوٹوگرافی ہرگز نہ تھا، بلکہ اس ماحول اور ان کے مسائل کی عکاسی تھی، جہاں ٹوٹی چکوں کے پیچھے رہنے والی آدم کی جوان بیٹیاں اپنے بوڑھے ماں باپ پر بوجھ بنے ہوئی ہیں، معاشرے کے زر پسند لوگوں کی نظرمیں نیلامی کا بوسیدہ مال سمجھ کر ٹھکرادی جاتی ہیں، جہاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے خُوب صورت پری چہرہ دوشیزائیں تمام عمر گھر کی دہلیزوں پر بوڑھی ہو جاتی ہیں، جہاں شادی دفاتر جھوٹ کا کاروبار کر کے اپنی چاندی بناتے ہیں۔ یہی وہ موضوع تھا،جس نےہمارےمعاشرے کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ایک کوشش کی ہے۔
سُسرال کی کہانی اندرون شہر لاہور کی کسی گلی کی نہیں ہے، بلکہ پُورے پاکستان میں آباد ان لاکھوں نہیں کروڑوں گھروں کی کہانی ہے، جہاں غربت کی مٹی میں بننے والے مکانوں کی کسی شکستہ دیوار سے کان لگا دیں تو وہاں سے سنائی دینے والی سسکیوں کی زبان سمجھ کر آپ کسی نتیجہ پر ضرور پہنچ جائیں گے کہ صرف ٹوٹی ہوئی چکیوں کے پیچھے رہنے والی زرد حواسوں کے آنسو ادھوری کہانی کو مکمل کر سکتے ہیں۔
اس فلم کی مختصر کہانی کا خلاصہ یوں ہے کہ شادی میں شہنائیاں بجانے والا مجید عرف جیدا ایک باجے والا ہے، جو شادی کے موقعوں پر باجا بجا کر اپنی خدمات انجام دیتا ہے، شادی کی عمر سے اس کی عمر کچھ زیادہ ہو گئی، اس پر وہ ہر وقت اپنی شادی کے لیے فکر مند رہتا ہے، اس کا پڑوسی احمد (یوسف خان) جو ایک کبوتر باز ہے، وہ اسے ایک شادی دفتر کا پتہ دیتا ہے۔
شادی دفتر کا مالک لہری جو اپنی باتوں سے جیدا (علائو الدین) کو پھانس کر اس کا رشتہ ایک اپاہج لڑکی (نگہت سلطانہ) سے طے کرا دیتا ہے، رشتہ طے ہونے کی صورت میں جیدا بہت خوش ہوتا ہے، وہ اپنے دوست احمد اور بھولا (دلجیت مرزا) کےساتھ بات پکی کرنے کے لیے طالش کی بیٹی صفیہ (نگہت سلطانہ) کے گھر جاتا ہے، جیدے کے سسرال والوں نے اپاہج صفیہ کے بجائے اس کی چھوٹی بہن زرینہ (لیلیٰ) کی منہ دکھائی جیدے سے کراکے بات پکی کرلیتے ہیں۔
زرینہ جسے احمد چاہتا تھا، احمد یہ سمجھا کہ جیدے کی شادی زرینہ سے طے ہو گئی ہے، وہ زرینہ کو بے وفا سمجھنے لگا، زرینہ نہ صرف اپنی اپاہج بڑی بہن کا رشتے طے کرانے کے لیے منگنی والے دن جیدے کے سامنے چائے پیش کی، جیدا دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ اسے ایک خُوب صورت دوشیزہ کا رشتہ مل گیا، شادی والے دن جیدا اپنے دوستوں کے ہمراہ دلہن کو بیاہ کر گھر لایا اور جب اس نے گھونگھٹ اٹھایا تو اس پر قیامت گزر گئی۔ زرینہ کی جگہ اس کی بڑی بہن اپاہج صفیہ کو دیکھا جیدے نے اسے بیوی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
احمد کو جب یہ پتہ چلا کہ جیدے کی شادی زرینہ کی بڑی بہن سے ہوئی، تو وہ صفیہ کے باپ سے مل کر اس کے بارے میں پوچھنے گیا، بڑی بہن صفیہ کا گھر بسانے کے لیے زرینہ نے ایک اور جیدے سے ملاقات کی اور اس کی غیرت کو جھنجھوڑا، احمد جو زرینہ سے شادی کا خواہش مند تھا، وہ جب اس کے باپ سے ملا، تو اس نے شرط رکھی کہ تم اپنے دوست جیدے کو صفیہ کو اپنی بیوی تسلیم کروانے کے لیے رضامند کرلو، زرینہ کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے دوں گا۔ جیدے کو بھی احساس ہو گیا کہ اس میں اس کی اپاہج بیوی کا کیا قصور ہے اور اپنے سسرال جا کر اپنی بیوی کو لےکر گھر آیا۔
1976ء بھٹو دور میں پاکستان ٹی وی پر یادگار پاکستانی فلموں کا ایک یادگار سلسلہ شروع کیا گیا تھا، جسے فیسٹیول مووی کا نام دیا گیا۔، اس فیسٹیول میں عشق پر زور نہیں، بدنام، قسمت، ہمراز ، راہ گزر اور سُسرال نامی فلمیں پیش کی گئیں ۔پُورے ملک سے ناظرین سے یہ پوچھا گیا کہ دکھائی جانے والی ان فلموں میں ان کے مطابق سب سے بہتر فلم کون سی ہے، تو عوام الناس کی اکثریت نے اپنا ووٹ فلم ’’سُسرال‘‘ کے حق میں دیا۔ اس طرح اس یادگار ٹی وی فیسٹیول میں ’’سسرال ‘‘ نے پہلی پوزیشن حاصل کر کے یہ مقابلہ اپنے نام کر لیا۔اس فلم کے گیت بھی بہت مقبول ہوئے۔اس یادگار فلم کے موسیقار حسن لطیف ملک تھے، نغمات کی تفصیل کچھ اسطرح سے ہے۔(1) ادھر بھی دیکھیں ایک نظر تو کیا جائے گا آپ کا۔ (سنگر ۔احمد رشدی) (نغمہ نگار ،تنویر نقوی، (فلم بندی۔ یوسف خان ،لیلیٰ)
(2) کبھی مسکرا کبھی جھوم جا۔ (سنگر احمد رشدی، امداد حسین دائود ) ( نغمہ نگار ،منیر نیازی) ( فلم بندی علائو الدین ، امداد حسین )۔(3) آئے گا صنم جب نظریں ملیں۔(سنگر نسیم بیگم) (نغمہ نگار ،تنویر نقوی) (فلم بندی لیلےٰ)۔ (4) کیسی ہے چپ چاپ ،سو گئیں سارے شہر کی گلیاں۔(سنگر آصف) (نغمہ نگار ،تنویر نقوی) ، (فلم بندی، یوسف جان)۔(5)جس نے میرے دل کو درد دیا۔(سنگر مہدی حسن ) نغمہ نگار، منیر نیازی ) ( فلم بندی ،علائو الدین)۔(6 ) جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا۔(سنگر نورجہاں) (نغمہ نگار ،منیر نیازی) (فلم بندی ،نگہت سلطانہ)۔
1962ء میں معروف مصنف و مکالمہ نویس ریاض شاہد نے بہ طور ہدایت کار اپنی پہلی فلم سسرال بنائی۔ اس فلم کی کہانی انہوں نے اپنے ایک ناول ’’ہزار دستان‘‘سے منتخب کر کے اسے فلم کے اسکرپٹ میں لکھی۔ بہ طور ہدایت کار ان کی ایک پہلی کاوش باکس آفس پر تو ان کو نقصان دے گئی، ان کی اس منفرد اصلاحی فلم کو بڑے بڑے نامور صحافیوں اور اخبارات نے بے حد سراہا، پاکستانی سینما پر اس سے قبل اس موضوع پر پہلے کوئی ایسی فلم نہیں بنائی گئی، جو بات اس فلم میں بتائی اور سمجھائی گئی۔
ریاض شاہد اس فلم میں بہ طور اسکرپٹ رائٹرجہاں مصلح اور ناصح نظر آئے تو ہدایت کار کی حیثیت میں وہ ایک معالج بن کر اترے، جس زخم کو انہوں نے معاشرے کا ناسور قرار دیا تو ڈاکٹر بن کر اسکا علاج بھی بتایا ۔اس فلم میں انہوں نے زیادہ تر شوٹنگ اندرون شہر کی گلیوں اور مکانوں کی چھتوں پر جاکر کی، جو بے حد مشکل اور دشوار ترین کام تھا۔ فلم کے فوٹوگرافر ان کے چھوٹے بھائی فیاض احمد شیخ تھے، جنہوں نے نہایت ذہانت اور ہنر مندی سے اندرون شہر کے اصل مقامات کی عکس بندی کی ۔