کوئی انسان لگ بھگ ایک صدی کی عمر پائے اور یہ عمر وہ حق اور سچ کی تلاش میں گزار دے ، اِس سے بہتر زندگی بھلا کیا ہو سکتی ہے !کچھ ایسی ہی زندگی مولانا وحید الدین خان نے گزاری ۔بقول غالب’اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو، آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی ۔‘
مولانا وحید الدین خاں کا سب سے بڑا کارنامہ اُن کی کتاب ’تعبیر کی غلطی ‘ ہے جو 1963میں شائع ہوئی ،اُس وقت مولانا کی عمر 38برس تھی ۔وحید الدین خاں کی یہ کتاب مولانا مودودی کی دین کی اُس تعبیر کے رد میں لکھی گئی تھی جس کے تحت مودودی صاحب نے سیاسی اسلام کا پورا مقدمہ قائم کیا تھا۔اِس کتاب کی اشاعت سے پہلے مولانا نے مودودی صاحب سے طویل خط و کتابت کی ۔یہ خط و کتابت پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے جس میں مولانا وحید الدین، مودودی صاحب کو اِس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اِس کتاب کو پڑھ کر اپنا تفصیلی موقف دیں اور دلائل سے ثابت کریں کہ دین کی اُن (مودودی صاحب )کی تعبیر صحیح ہے۔ مولانا مودودی کی عمر اُس وقت ساٹھ برس تھی،اُن کا ستارہ اپنے عروج پر تھا، ایسے میں اڑتیس برس کا ایک جوان انہیں اپنا مسودہ بھیجتا ہے اور کہتا ہے کہ دین اسلام کی جو تعبیر آپ نے کی ہے وہ درست نہیں، قران و حدیث کی روشنی اور اپنے علم کے مطابق میں اپنا مقدمہ پیش کررہا ہوں، براہ مہربانی اسے پڑھ لیں اور مدلل جواب سے نوازیں۔مودودی صاحب جواب میں کہتے ہیں کہ آپ بہت بلند مقام سے گفتگو فرما رہے ہیں ، یوں لگتا ہے جیسے آپ نے اپنا ذہن پہلے ہی بنا لیا ہے کہ جو کچھ آپ نے لکھا ہے وہی حرف آخر ہے ، ایسی صورت میں میر ی رائے کی ضرورت نہیں ، آپ کو اختیار ہے دین کی جس تعبیر کو درست سمجھتے ہیں اُس کی ترویج کریں۔مگر وحید الدین خاں باز نہیں آتے اور بار بار مودودی صاحب کو خط لکھتے ہیں ، جواب میں مجبورا ً مودودی صاحب کو لکھنا پڑتا ہے کہ ’’آپ سے تحریری مناظرے میں الجھنا میرے لیے ممکن اور موزوں نہیں۔۔۔‘‘اِس کے بعد دونوں کی خط و کتابت ختم ہو جاتی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ وحید الدین خاں نے ’تعبیر کی غلطی‘ میں مولانا مودودی کے سیاسی اسلام کے مقدمے کو بہت مدلل اور علمی انداز میں رد کیا ہے مگر مودودی صاحب کے ساتھ خط و کتابت کرتے ہوئے وحید الدین خاں کا اصرار کرنا کہ آپ ہر صورت اِس کا جواب دیں ، مناسب بات نہیں تھی۔ مودودی صاحب کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ وحید الدین خاں کی کتاب پڑھتے اور اُس کے ہر پیراگراف پر رائے دیتے ۔ بہرحال یہ دونوں ہستیاں اپنی اپنی جگہ عظیم تھیں، اب دنیا میں نہیں رہیں،ان کا مناظرہ اب جنت میں ہی ہوگا۔
مولانا وحید الدین خاں تقسیم ہند کے خلاف تھے ، اقبال اور جناح کے نظریات کے بھی ناقد تھے ، ہندوستان کے مسلمانوں کی غربت کا ذمہ دار خود انہی کو سمجھتے تھے، کشمیر پر ان کا موقف وہی تھا جو بھارتی ریاست کا تھا، کشمیری مسلمانوں کے لیے اُ ن کا مشورہ تھا کہ وہ ہندوستان میں ضم ہو جائیں۔ بابری مسجد کے معاملے پر بھی وہ مسلمانوں کو ہی مشورہ دیتے تھے کہ وہ اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائیں۔ اسی طرح فلسطین کے مسلمانوں کو بھی قصور وار سمجھتے تھے۔ مولانا کسی بھی صورت میں مظلوم کو ظالم کے خلاف ہتھیا ر اٹھانے کا حق نہیں دیتے تھے، اُن کا ماننا تھا کہ یہ دنیا اب مسلح جدوجہد کے لیے سازگار نہیں رہی۔ مولانا کے بیشتر سیاسی نظریات سے اتفاق کرنا میر ے لیے ممکن نہیں۔ دنیا میں اگر کشمیر اور فلسطین کے مسلمان مظلوم نہیں تو پھر ہمیں لغت میں مظلوم کی تعریف تبدیل کرنا ہوگی اور رہی بات مسلح جدوجہد کی تو ایسی کوئی مثالی دنیا تا حال وجود میں نہیں آئی جس میں آپ مسلح جدوجہد کی ہر شکل کو غیر قانونی کہہ سکیں۔ اصل تشدد وہ ہوتا ہے جو سامراجی طاقتیں اور ناجائز اور قابض حکومتیں کرتی ہیں، اس تشدد کے جواب میں فرانز فانن کو بندوق اٹھانی پڑتی ہے۔خیریہ ایک الگ بحث ہے۔
وحید الدین خاں ایک عقلیت پسند مذہبی عالم تھے، خدا کے وجود کو منطقی انداز میں ثابت کرنے کے قائل تھے،انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اکیسویں صدی کا ذہن پرانی اور دقیانوسی باتوں سے مطمئن نہیں ہوگا ، اسی لیے لکھتے وقت وہ جدید سائنسی معلومات کی مدد سے خدا کے وجود کے حق میں دلائل دیتے ۔منطق پر بھی انہیں عبور حاصل تھا ، ’طریق استدلال کا مسئلہ‘ اُن کی ایک لا جواب تحریر ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ہم ایسی چیزوں کا وجود بھی ثابت کر سکتے ہیں جن کے بارے میں براہ راست ثبوت موجود نہیں ہوتا، یہ طریقہ اگر سائنس کے معاملے میں درست مانا جا سکتا ہے تو مذہب کے لیے کیوں نہیں!تاہم نظریہ ارتقا کے بارے میں مولانا نے جو استدلال دیا وہ قدر ے کمزور تھا کہ کسی چڑیا خانے میں یہ تجربات نہیں کیے جا سکتے جس میں بکری زرافہ بنتی ہوئی نظر آئے ۔ نظریہ ارتقا کو یوں پرکھنا درست نہیں ۔ آج کل کورونا وائرس ہمارے سامنے جُون بدل رہا ہے ، Mutate ہو رہا ہے ، اُس کی نئی نئی اقسام سامنے آ رہی ہیں، یہ ارتقائی عمل نہیں تو اور کیا ہے؟
ذاتی طور پر مجھے مولانا کی شخصیت کا وہ پہلو پسند ہے جس میں وہ ایک بزرگ رہنما کی طرح انسانوں کو جینے کا ڈھنگ سکھاتے نظر آتے ہیں۔ اُن کی کتابیں رازحیات ،کتاب زندگی ،اسباق تاریخ وغیرہ ایسی ہیں کہ جنہیں تکیے کے نیچے رکھ کر سونا چاہیے ۔ اِن کتابوں کا انداز تحریر بے حد دلچسپ ہے ، دنیا جہان کے واقعات مولانا نے اِن میں جمع کر دیے ہیں جنہیں وہ بے حد خوبصورتی کے ساتھ زندگی کی ناہمواریوں پر منطبق کرتے ہیں او ر پھر ایک نتیجہ اخذ کرکے قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں ۔مولانا کی شخصیت کا یہ پہلو منفرد ہے ، کوئی اور عالم دین اِس انداز میں دین اور دنیا کی تعبیر پیش نہیں کر سکا جس انداز میں مولانا وحید الدین خاں نے کی ۔وحید الدین خاں کا مقابلہ اگر کسی سے کیا جا سکتا تھا تو وہ خود وحید الدین خاں ہی تھے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)