پچھلے چند ہفتوں کے دوران پاکستان کی سیاست میں جو دو بڑے واقعات رونما ہوئے ، ہو سکتا ہے کہ وہ اتفاقات کا نتیجہ ہوں لیکن ایسے واقعات کے رونما ہونے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک میکانزم کام کر رہا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میکانزم کا درست ادراک کرنے کے لیے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے ۔
پہلے ان دو بڑے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں ، جو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران رونما ہوئے ۔ پہلا بڑا واقعہ یہ رونما ہوا کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کا لانگ مارچ نہ صرف منسوخ ہو گیا بلکہ پی ڈی ایم ایک سیاسی اتحاد کے طور پر بھی برقرار نہ رہ سکا ۔ میں نے انہی کالموں میں اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ پی ڈی ایم میں اگرچہ مختلف نظریات اور مفادات کی حامل سیاسی جماعتیں شامل تھیں لیکن پی ڈی ایم کی تحریک اپنے جوہر میں پاکستان کے عوام کی حقیقی سیاسی تحریک ہو سکتی تھی کیونکہ سب لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ پاکستان کی سیاست اور معیشت کو پاکستان کی غیر سیاسی قوتوں اور بعض عالمی طاقتوں کی مداخلت سے آزاد کرایا جائے ۔ پاکستان میں آزادانہ جمہوری عمل کو یقینی بنایا جائے اور تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی نااہلی،مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف لوگوں کو باہر نکالا جائے ۔ اگر پی ڈی ایم کا سیاسی اتحاد برقرار رہتا اور پی ڈی ایم اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھتا تو پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی عوام تحریک کو حقیقی سیاسی رخ پر ڈال دیتے ۔ اگر لانگ مارچ ہو جاتا تو پاکستان کی پولیٹکل کیمسٹری تبدیل ہو جاتی۔
دوسرا بڑا واقعہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی ) کے احتجاج اور اس احتجاج کے سامنے ریاست و حکومت کے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں رونما ہوا ۔ ٹی ایل پی نے فرانس کے ایک میگزین چارلی ہیبڈو میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر اپنے گزشتہ احتجاج کو حکومت کے ساتھ اس معاہدے کے بعد ختم کیا تھا کہ حکومت فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے اقدام کرے گی ۔ حکومت نے معاہدے کی پاسداری نہ کی لہٰذا کالعدم ٹی ایل پی نے دوبارہ احتجاج کیا ۔ 20اپریل کو وہ اسلام آباد میں دوبارہ دھرنا دینا چاہتی تھی ۔ احتجاج کے دوران کچھ ناخوشگوار واقعات ہوئے ۔ حکومت نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دے دیا اور اس کے بہت سے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا لیکن ٹی ایل پی نے اپنا احتجاج جاری رکھا اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنا پڑے۔
یہ ٹھیک ہے کہ کوئی بھی مسلمان ناموس رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے لیکن دنیا خاص طور پر امریکا اور مغربی دنیا میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ پاکستان میں ایک سیاسی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی اور ایک مذہبی جماعت نے پورے ملک کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس طرح ان کے نزدیک پاکستانی معاشرہ ایک شدت پسند مذہبی معاشرہ ہے اور وہ چاہتے بھی یہی ہیں۔ وہ صرف پاکستان ہی نہیں پوری اسلامی دنیا کے بارے میں یہی چاہتے ہیں ۔ وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں اس سوال کا مفصل اور مدلل جواب دیا ہے۔
کتاب مفاہمت کا اصل ( Theme ) یہ ہے کہ سرد جنگ کے بعد کے عہد کی چپقلش کی بنیاد تہذیبوں پر رکھی گئی ہے۔ پہلے یہ بنیاد سرمایہ داری اور اشتراکیت پر تھی یا سامراجی قوتوں اور سامراج مخالف قوتوں کے درمیان چپقلش پر تھی لیکن اب امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریے کو پروان چڑھایا ہے۔ یہ نظریہ امریکی پروفیسر سیموئیل ہیٹنگ ٹن نے دیا۔ اسے فروغ دے کر امریکی اور مغربی اقوام کو بتایا گیا کہ ایک مغربی تہذیب ہے اور اس سے متصادم ایک اسلامی تہذیب ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ وہ اس نظریہ کو نہیں مانتیں لیکن امریکا اور مغرب اسی نظریہ کی بنیاد پر دنیا میں سیاست کر رہے ہیں ۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ مسلم ریاستوں کو انتہا پسند مذہبی ریاستوں میں تبدیل کرنا ان کا بنیادی ہدف ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے امریکا اور مغرب‘ مسلم ریاستوں میں رجعت پسند سیاسی اور معاشرتی ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ مسلم ریاستوں کی غیر سیاسی اور آمریت نواز طاقتیں بھی اس ایجنڈے کی حامی ہیں کیونکہ یہ طاقتیں بھی اعتدال پسند اور جمہوری معاشرے کی تشکیل کو قبول نہیں کرتی ہیں۔
تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ بقول شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ‘غیر مغربی طاقتوں ( چین ، جاپان ، بھارت وغیرہ ) کے ظہور کے ساتھ ہی سامنے آیا اور اس کا بدترین نتیجہ یہ ہو گا کہ تہذیبوں کا تصادم ازخود پوری ہونے والی پیش گوئی بن سکتا ہے۔ یہ مناقشوں کی شدت میں اضافہ کرے گا یا کسی ایسے مناقشے کو جنم دے گا، جو بصورت دیگر رونما نہ ہوتا۔
اس تناظر میں ہمیں یہ سمجھنا ہو گاکہ پاکستان سمیت اسلامی دنیا میں جو کچھ رونما ہوا یا رونما ہو رہا ہے ، وہ بصورت دیگر رونما نہ ہوتا اگر تہذیبوں کا تصادم ازخود پوری ہونے والی پیش گوئی نہ بن جاتا ۔ ہم نے اس پر غور ہی نہیں کیا کہ گستاخانہ خاکوں ، کتابوں اور بیانات کے پس پردہ منصوبہ بندی کیا ہے ۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ اور اس کی سرپرست عالمی طاقتوں کو سیاسی قوتوں کے مقابلے میں مذہبی قوتوں کے آگے گھٹنے ٹیکنا کیوں قبول ہے ؟کیوں کہ یہ ان کے ایجنڈے کی تکمیل کرتا ہے ۔ لوگ غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی ، بنیادی حقوق کی پامالی ، حکومتی نااہلی ، سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت ، ملکی اور عالمی استحصالی نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد میں ناکام رہیں اور دوسرے جذباتی معاملات میں الجھ جائیں تو ان کا فائدہ ہے ۔ ہمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی اس بات کا بھی ادراک کرنا ہو گا کہ ہم اصل جنگ مغرب کے خلاف نہیں لڑ رہے بلکہ ہم اپنے داخلی تضادات میں اس جمہوری معاشرے کی تشکیل میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں ، جو تصادم کے نظریہ کو غلط ثابت کر سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)