ہمارا ہمسایہ ملک بھارت اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں عالمی وباء کورونا نے مستقل پنجے گاڑ لئے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افراد اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ رہے ہیں، لوگ سڑکوں پر دربدر آکسیجن کی بھیک مانگتے گڑگڑا رہے ہیں ، ملک بھر کے مختلف شمشان گھاٹوں میں آخری رسومات ادا کرنے کیلئے لوگوں کا رش لگا ہے، عالمی ادارہ صحت نے بھارت کی صورتحال کو گھمبیر قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی میں ہر چار منٹ میں کورونا سے متاثر ایک شخص زندگی کی بازی ہار رہاہے،مقامی اسپتالوں میں کورونا وائرس کے کیسز میں غیرمعمولی اضافے کے سبب میڈیکل آکسیجن کی فراہمی شدید متاثر ہوئی ہے، موجودہ بدترین صورتحال کو دہلی کی ہائی کورٹ نے 'سونامی' قرار دیاہے جہاں مسلسل تیسرے دن کورونا کیسز کا عالمی ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ خوشیاں اپنی اپنی دکھ سب کے سانجھے ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بھارت میں انسانی جانوں کے المناک بحران نے پاکستان میں بسنے والوں کو بھی خون کے آنسو رُلا دیا ہے اور آج انسانیت کا درد رکھنے والا ہر پاکستانی ہر قسم کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشکلات میں گھِرے بھارتی عوام سے اظہارِ یکجہتی کررہا ہے، حکومت پاکستان کی طرف سے بھارتی عوام کو مشکل کی اس گھڑی میں مدد کی پیشکش کو ملک بھر میں سراہا جارہا ہے،سوشل میڈیاپر پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کی جانب سے بھارتی عوام کے حق میں ٹاپ ٹرینڈز دونوں ممالک کے میڈیا کی زینت بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں، پاکستان کےممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے کورونا وباء میں گھِرے بھارتی عوام کیلئے خصوصی دعا کا اہتمام کیا، دین دھرم کی تفریق سے بالاتر ہوکر خدمت انسانیت پر یقین رکھنے والے عظیم باپ عبدالستارایدھی مرحوم کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے بھارتی عوام کی مدد کیلئے ایمبولینس اور دیگر طبی امداد پہنچانے کا اعلان کیا ہے، اسی طرح رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسجدوں، مندروں سمیت عبادتگاہوں میں بھی بھارتی عوام کیلئے خصوصی دعائیں کی جارہی ہیں۔ گو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے اپنے وطن عزیز پاکستان میں بھی کورونا کی صورتحال گھمبیر ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود ہماری جانب سے بھارت سے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اظہار یکجہتی اعلیٰ انسانی اقداررکھنے والی ایک زندہ قوم کی نشاندہی کرتا ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ موقف ہے کہ حق اور باطل کی جنگ میں ہمیشہ آخری جیت حق کی ہوتی ہے، نفرتوں کا اندھیراپھیلانے والے عناصر چاہے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، آخرکار روشنی کی ایک کرن کے ہاتھوں شکست کھا جاتے ہیں۔ وہی بھارتی میڈیا جو چوبیس گھنٹے پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہتا تھا، آج وہ بھی پاکستان کی جانب سے بھارتی عوام کے ساتھ ہمدردی کے جذبات اور نیک خواہشات کے اظہار پر مثبت رپورٹنگ کررہا ہے۔ پاکستان اور بھارت انگریز سامراج کے خلاف مشترکہ جدوجہد آزادی کی ایک تابناک تاریخ کے حامل دو پڑوسی ممالک ہیں، متعدد مجاہدین آزادی دونوں ممالک کے عوام کے دِلوں میں بستے ہیں۔ اس حوالے سے چند دنوں پہلے کسی نے مجھے واٹس ایپ پر ایک دلچسپ پوسٹ فارورڈ کی کہ برطانوی دور اقتدار میں کوئٹہ میں 1935ء کے قیامت خیز زلزلے کے بعد جواہر لعل نہرو نے انگریز سرکار کو خط لکھ کر ناکافی حکومتی اقدامات پر شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا، وقت آگے بڑھا اور تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان اور بھارت آزاد ممالک کے طور پر دنیا کے نقشے پر اْبھرے، گاندھی کے اندوہناک قتل کی خبر ملتے ہی پاکستان میں سرکاری تعطیل اور سوگ کا اعلان کیا گیا، اْس وقت قائد اعظم حیات تھے، اسی طرح جب لیاقت علی خان کی شہادت کا سانحہ رونما ہوا تو بھارت میں سرکاری تعطیل اور سوگ منایا گیا، اْس وقت نہرو بھارت کے وزیر اعظم تھے، البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفرتیں اور عصبیتیں منہ زور آندھیوں کی طرح ہر شے کو تہس نہس کرتی چلی گئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ قدرتی آفات کے شکار ملک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا سفارتی سطح پرایک مروجہ عالمی رسم ہے، تاہم آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت کی سات دہائیوں پر محیط سفارتی تاریخ میں یہ منفرد موقع ہے کہ سرحد کے دونوں پاربڑی تعداد میں امن کے حامی ایک دوسرے کیلئے کھلے عام نیک جذبات کا اظہار کررہے ہیں، اب تو بھارت کا میڈیا، سول سوسائٹی اور ارکان پارلیمان بھی مودی سرکار کو پاکستان کی جانب سے امداد کی پیشکش قبول کرنے پر زور دے رہے ہیں، گرجیت سنگھ اوجلہ نامی بھارتی سکھ رکن لوک سبھا نے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے نام خط میں کورونا وباء سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی مدد کی پیشکش قبول کرنے کے ساتھ پاک بھارت کی واہگہ سرحد کو آکسیجن کوریڈور بنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ عالمی برادری بھی ہمارے حالیہ اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے پاکستان کو ایک امن پسند اور ذمہ دار ہمسایہ ملک قرار دے رہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ بھارتی قیادت اپنی شدت پسندی کی روش کو ترک کرکے خطے کے عوام کی خوشحالی کیلئے مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرے، گزشتہ سات دہائیوں میں شدت پسند عناصر کی جانب سے جو نفرت کے بیج بوئے گئے ہیں، آج ان کی بیج کنی کرتے ہوئے پاکستان کی پیشکش کا مثبت جواب دے۔موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت انسانیت کی خاطر دوطرفہ تعلقات کو ایک نئے عزم کے ساتھ بہتری کی طرف گامزن کرے،آج میری بھگوان سے پراتھنا ہے کہ مالک پاکستان، بھارت سمیت پوری دنیاسے کورونا جیسے موذی مرض کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)