میرابڑا بیٹا سمیرچونکہ پڑھائی کے معاملے میں بہت اچھا جارہا ہے، اس لیے طے پایا کہ اسے مزید ’’ارسطو‘‘ بنایا جائے اور ٹیوشن رکھی جائے۔ اس کا اظہار بیوی نے مجھ سے کیا تھا۔ اُس وقت میں نے دبا دبا سا احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ بچے کو کھیلنے کے لیے بھی کچھ ٹائم ملنا چاہیے۔ یہ سن کر بیگم نے غصے سے مجھے دیکھا اور کڑک کر بولیں ’’آپ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ بچہ کچھ نہ پڑھے اور آپ کے ساتھ بیٹھ کر سارا سارا دن ’’ٹام اینڈجیری ‘‘اور ’’ڈورے مان ‘‘دیکھتا رہے‘‘۔
میں نے کھسیانی آواز میں کہا’’یاروہ کارٹون تو میں صرف بچے کی دلچسپی کے لیے دیکھتا ہوں ورنہ اللہ جانتا ہے مجھے تو صرف نیشنل جیوگرافک چینل اچھا لگتاہے‘‘ ۔ حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ٹام اینڈ جیری اور ڈورے مان سے عشق ہے‘ یہ کارٹون لگے ہوں تو میں اکثر کھانا کھانا بھی بھول جاتاہوں۔ بہرحال فیصلہ ہوگیا کہ سمیر کے لیے ہوم ٹیوٹر کا بندوبست کیا جائے۔ایک دوست سے ذکر کیا تو انہوں نے اگلے ہی دن ایک پڑھے لکھے نوجوان کو بھیج دیا۔
میں نے اُس سے بچے کو پڑھانے کا ’’جرمانہ ‘‘ پوچھا تو اس نے انتہائی لاپروائی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھی اورسپاٹ لہجے میں بولا’’پانچ ہزار۔۔۔وہ بھی ایڈوانس‘‘۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔ اُس کے جانے کے بعد اُس وقت کو یاد کرنے لگا جب میں پڑھتا تھا ۔ یہ 1988 کی بات ہے‘ ملتان کے محلے طارق آباد میں ہمارا چھوٹا سا تین مرلے کا گھر ہے‘ میں میٹرک میں پڑھ رہا ہوں‘ چھ ماہ بعد سالانہ امتحان ہونے والے ہیں اور گھر والوں کوخدشہ ہے کہ کہیں میں فیل نہ ہوجاؤں۔ میں خود بھی گھر والوں کے خدشات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کرتا۔ پڑھتا تو ہر وقت تھا لیکن صرف عمران سیریز کے ناول۔
گھر میں بات چلی کہ مجھے ٹیوشن پڑھانی چاہیے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ذرائع آمدن محدود تھے اور ابا جی اپنی آمدنی میں سے میری ٹیوشن کے لیے ماہانہ ’’ڈیڑھ سو‘‘ روپیہ نکالنے سے قاصر تھے۔ میں نے انہیں بڑا یقین دلایا کہ میں دل لگا کر پڑھ رہا ہوں لیکن پتا نہیں کیوں انہیں ہمیشہ میری پڑھائی پر شک ہی رہا۔ ان ہی دنوں پتا چلا کہ ہمارے محلے میں چھ گلیاں دور ایک خدا ترس‘ ماسٹر شفیع صاحب رہتے ہیں جو بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ہمارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور طے پایا کہ میں ان کےپاس ٹیوشن پڑھنے جایا کروں گا۔
اُن دنوں ٹیوشن کے پیسے ایڈوانس نہیں لیے جاتے تھے، لہذا میں نے ماسٹر شفیع کے پاس جانا شروع کر دیا۔ ان کے گھر کی بیٹھک میں بیس طالب علم ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔وہ اتنی محبت اور انہماک سے ہمیں پڑھاتے کہ ٹیوشن کا ٹائم ختم ہونے کے بعد بھی دل کرتا کہ ان کے پاس بیٹھے رہیں۔ان کی بیٹھک کا اندرونی دروازہ ایک اور چھوٹے سے کمرے میں کھلتا تھا ‘ گو کہ میں ابھی تک اس کمرے میں نہیں گیا تھا لیکن جس جگہ میں بیٹھتا تھا وہاں سے اِس کمرے میں رکھی جائے نماز‘ تسبیح اور کتابوں کا ڈھیر ضرور نظر آتا تھا۔ مجھے ماسٹر صاحب کے پاس ٹیوشن پڑھتے ہوئے ایک ماہ پوراہوا تو ایک دن ماسٹر صاحب نے ایک ایسا جملہ کہا کہ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ انہوں نے اندر والے کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا’’باری باری جاؤ اور اپنی فیس کے پیسے پلنگ کے پاس پڑے ہوئے ڈبے میں ڈال آؤ‘‘۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں‘ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ ماسٹر صاحب مفت پڑھاتے ہیں لیکن وہ تو فیس مانگ رہے ہیں۔میں نے پاس بیٹھے اپنے دوست علی عباس کو کہنی ماری ’’ماسٹر صاحب کی فیس کتنی ہے؟‘‘ اُس نے سرگوشی میں جواب دیا’’ڈیڑھ سو روپے‘‘۔۔۔ یہ سن کر میرے ہاتھ پاؤں سن ہوگئے۔مجھے صاف پتا چل رہا تھا کہ آج سب کے سامنے ذلیل ہونا پڑے گا۔ بیٹھک میں بیٹھا ایک ایک لڑکا باری بار ی اٹھ کر اندر کمرے میں جاتا اور فیس کے پیسے ڈبے میں ڈال کر واپس آجاتا۔ بے عزتی اور شرمندگی کے احساس سے میری ہتھیلیاں نم ہونے لگیں‘میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ماسٹر صاحب کی نظریں میری طرف اٹھ گئیں۔میں بوکھلا کر کمرے کی طرف چل دیا۔
اندر داخل ہوتے ہی میں نے بائیں طرف دیکھا جہاں ایک پرانا سا پلنگ پڑا ہوا تھا‘ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی لکڑی کی میز تھی جس پر گتے کا ایک ڈبہ رکھا ہوا تھا‘ ڈبے کے چاروں طرف کالے رنگ کی ٹیپ لپیٹی ہوئی تھی اوراوپری سطح پر چھوٹا ساسوراخ تھا‘ یہ بالکل ایسا ہی ڈبہ تھا جیسے چندے کے ڈبے ہوتے ہیں۔میں کچھ دیر سوچتا رہا‘ پھر اچانک دماغ میں ایک ترکیب آئی۔اگر میں ایسے ہی واپس چلا جاؤں تو۔۔۔ماسٹر صاحب کو بھلا کیسے پتا چلے گا کہ کس طالب علم نے فیس کے پیسے نہیں دیے‘ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میرے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔میں چند ساعتوں کے لیے وہیں رُکا اور پھر بڑے اطمینان سے بیٹھک میں آکراپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد چھٹی ہوگئی۔
اگلے دن میرا دل دھک دھک کر رہا تھا کہ کہیں ماسٹر صاحب کو میرے فراڈ کا پتا نہ چل گیا ہو‘ لیکن شاید میری چال کام کر گئی تھی‘ ماسٹر صاحب کو کچھ پتا نہ چل سکا اور میں اطمینان سے ٹیوشن پڑھتا رہا۔ دوسرا مہینہ ختم ہوا تو میں نے پھر یہی طریقہ اختیار کیا اور صاف بچ نکلا۔ اب مجھے بھی اطمینان ہوگیا تھا کہ کچھ نہیں ہونے والا لہٰذا ہر دفعہ جیسے ہی فیس دینے کی باری آتی‘ میں کمرے میں جاتا اور گردن اکڑائے باہر آجاتا۔ اب مجھے ماسٹر صاحب سے ٹیوشن پڑھنے میں زیادہ مزہ آنے لگا تھا ،کیونکہ اب مجھ میں اعتماد آگیا تھا کہ بہرحال اب میں ’’فیس‘‘ ادا کرکے ٹیوشن پڑھ رہا ہوں۔چھ ماہ تک میں نے اورمفت ٹیوشن کے مزے لوٹے۔ اس کے بعد سالانہ امتحان ہوگئے ساتھ ٹیوشن بھی ختم ہوگئی۔
میٹرک کے نتائج کے اعلان سے پہلے دو ماہ کی چھٹیاں تھیں ، میں نے خوب ناول پڑھے اور دوستوں کے ساتھ ہاکی اور ٹیبل ٹینس کھیلا۔ہم دوست جب بھی گراؤنڈ کی طرف جارہے ہوتے تو اکثر راستے میں ہمیں ماسٹر صاحب مل جاتے‘ ہم سب انہیں سلام کرتے‘ میں دل ہی دل میں قہقہے لگاتا کہ میں نے چھ ماہ تک ماسٹر صاحب کو پوری فیس ادا کرکے مفت ٹیوشن پڑھی ہے۔
1992 ء میں ماسٹر شفیع انتقال کرگئے‘ میں ان کے جنازے میں شریک ہوا تھا اور دل ہی دل میں اُن سے اپنی حرکت کی معافی مانگی ۔لگ بھگ 22 سال بعد میری ملاقات اپنے ٹیوشن کے ایک ساتھی علی عباس سے ہوئی ‘ وہ ایک معروف الیکٹرانکس کمپنی میں مارکیٹنگ ہیڈ ہے‘ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے‘ ملتان کی یادیں اور بچپن کی شرارتیں یاد کیں۔میں نے ہنستے ہوئے علی عباس کو اپنی ٹیوشن فیس والی حرکت بتائی۔۔۔میری بات سن کر وہ یکدم سکتے میں آگیا‘ پھر بے اختیار اس کی پلکوں کے گوشے نم ہوگئے۔
میں گھبرا گیا کہ کہیں میری حرکت کا خمیازہ علی عباس کو تو نہیں بھگتناپڑا لیکن علی عباس نے ایک ایسی بات کہی کہ میرا پورا وجود برف ہوگیا۔کہنے لگا’’ ماسٹر شفیع سے ٹیوشن پڑھنے والا ہر طالب علم یہی کیا کرتا تھا۔"ہم دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہے،کچھ نہ بولے۔ ہم نے اچھا نہیں کیا تھا۔ اپنے اُستاد کو دھوکا دیا تھااور استاد نے سب کچھ جانتے ہوئے شاگردوں سے شکوہ نہ کیا۔ ماسٹر شفیع، آج میں بہت شرمندہ ہوں۔
میرا بڑا بیٹا سمیر چونکہ پڑھائی کے معاملے میں بہت اچھا جارہا ہے، اس لیے طے پایا کہ اسے مزید ’’ارسطو‘‘ بنایا جائے اور ٹیوشن رکھی جائے۔ اس کا اظہار بیوی نے مجھ سے کیا تھا۔ اُس وقت میں نے دبا دبا سا احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ بچے کو کھیلنے کے لیے بھی کچھ ٹائم ملنا چاہیے۔ یہ سن کر بیگم نے غصے سے مجھے دیکھا اور کڑک کر بولیں ’’آپ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ بچہ کچھ نہ پڑھے اور آپ کے ساتھ بیٹھ کر سارا سارا دن ’’ٹام اینڈجیری ‘‘اور ’’ڈورے مان ‘‘دیکھتا رہے‘‘۔ میں نے کھسیانی آواز میں کہا’’یاروہ کارٹون تو میں صرف بچے کی دلچسپی کے لیے دیکھتا ہوں ورنہ اللہ جانتا ہے مجھے تو صرف نیشنل جیوگرافک چینل اچھا لگتاہے‘‘ ۔ حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ٹام اینڈ جیری اور ڈورے مان سے عشق ہے‘ یہ کارٹون لگے ہوں تو میں اکثر کھانا کھانا بھی بھول جاتاہوں۔بہرحال فیصلہ ہوگیا کہ سمیر کے لیے ہوم ٹیوٹر کا بندوبست کیا جائے۔
ایک دوست سے ذکر کیا تو انہوں نے اگلے ہی دن ایک پڑھے لکھے نوجوان کو بھیج دیا۔ میں نے اُس سے بچے کو پڑھانے کا ’’جرمانہ ‘‘ پوچھا تو اس نے انتہائی لاپروائی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھی اورسپاٹ لہجے میں بولا’’پانچ ہزار۔۔۔وہ بھی ایڈوانس‘‘۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔ اُس کے جانے کے بعداُس وقت کو یاد کرنے لگا جب میںپڑھتا تھا ۔ یہ 1988 کی بات ہے‘ ملتان کے محلے طارق آباد میں ہمارا چھوٹا سا تین مرلے کاگھر ہے‘ میں میٹرک میں پڑھ رہا ہوں‘ چھ ماہ بعد سالانہ امتحان ہونے والے ہیں اور گھر والوں کوخدشہ ہے کہ کہیں میں فیل نہ ہوجاؤں۔ میں خود بھی گھر والوں کے خدشات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کرتا۔ پڑھتا تو ہر وقت تھا لیکن صرف عمران سیریز کے ناول۔
گھر میں بات چلی کہ مجھے ٹیوشن پڑھانی چاہیے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ذرائع آمدن محدود تھے اور ابا جی اپنی آمدنی میں سے میری ٹیوشن کے لیے ماہانہ ’’ڈیڑھ سو‘‘ روپیہ نکالنے سے قاصر تھے۔میں نے انہیں بڑا یقین دلایا کہ میں دل لگا کر پڑھ رہا ہوں لیکن پتا نہیں کیوں انہیں ہمیشہ میری پڑھائی پر شک ہی رہا۔ان ہی دنوں پتا چلا کہ ہمارے محلے میں چھ گلیاں دور ایک خدا ترس‘ ماسٹر شفیع صاحب رہتے ہیں جو بچوں کو مفت ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ہمارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور طے پایا کہ میں ان کےپاس ٹیوشن پڑھنے جایا کروں گا۔
اُن دنوں ٹیوشن کے پیسے ایڈوانس نہیں لیے جاتے تھے، لہذا میں نے ماسٹر شفیع کے پاس جانا شروع کر دیا۔ ان کے گھر کی بیٹھک میں بیس طالب علم ٹیوشن پڑھنے آتے تھے۔ وہ اتنی محبت اور انہماک سے ہمیں پڑھاتے کہ ٹیوشن کا ٹائم ختم ہونے کے بعد بھی دل کرتا کہ ان کے پاس بیٹھے رہیں۔ان کی بیٹھک کا اندرونی دروازہ ایک اور چھوٹے سے کمرے میں کھلتا تھا ‘ گو کہ میں ابھی تک اس کمرے میں نہیں گیا تھا لیکن جس جگہ میں بیٹھتا تھا وہاں سے اِس کمرے میں رکھی جائے نماز‘ تسبیح اور کتابوں کا ڈھیر ضرور نظر آتا تھا۔
مجھے ماسٹر صاحب کے پاس ٹیوشن پڑھتے ہوئے ایک ماہ پوراہوا تو ایک دن ماسٹر صاحب نے ایک ایسا جملہ کہا کہ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ انہوں نے اندر والے کمرے کی طرف اشارہ کر کے کہا’’باری باری جاؤ اور اپنی فیس کے پیسے پلنگ کے پاس پڑے ہوئے ڈبے میں ڈال آؤ‘‘۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں‘ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ ماسٹر صاحب مفت پڑھاتے ہیں لیکن وہ تو فیس مانگ رہے ہیں۔
میں نے پاس بیٹھے اپنے دوست علی عباس کو کہنی ماری ’’ماسٹر صاحب کی فیس کتنی ہے؟‘‘ اُس نے سرگوشی میں جواب دیا’’ڈیڑھ سو روپے‘‘۔۔۔ یہ سن کر میرے ہاتھ پاؤں سن ہوگئے۔مجھے صاف پتا چل رہا تھا کہ آج سب کے سامنے ذلیل ہونا پڑے گا۔ بیٹھک میں بیٹھا ایک ایک لڑکا باری بار ی اٹھ کر اندر کمرے میں جاتا اور فیس کے پیسے ڈبے میں ڈال کر واپس آجاتا۔ بے عزتی اور شرمندگی کے احساس سے میری ہتھیلیاں نم ہونے لگیں‘میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ماسٹر صاحب کی نظریں میری طرف اٹھ گئیں۔
میں بوکھلا کر کمرے کی طرف چل دیا۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے بائیں طرف دیکھا جہاں ایک پرانا سا پلنگ پڑا ہوا تھا‘ ساتھ ہی ایک چھوٹی سی لکڑی کی میز تھی جس پر گتے کا ایک ڈبہ رکھا ہوا تھا‘ ڈبے کے چاروں طرف کالے رنگ کی ٹیپ لپیٹی ہوئی تھی اوراوپری سطح پر چھوٹا ساسوراخ تھا‘ یہ بالکل ایسا ہی ڈبہ تھا جیسے چندے کے ڈبے ہوتے ہیں۔میں کچھ دیر سوچتا رہا‘ پھر اچانک دماغ میں ایک ترکیب آئی۔
اگر میں ایسے ہی واپس چلا جاؤں تو۔۔۔ماسٹر صاحب کو بھلا کیسے پتا چلے گا کہ کس طالب علم نے فیس کے پیسے نہیں دیے‘ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میرے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔میں چند ساعتوں کے لیے وہیں رُکا اور پھر بڑے اطمینان سے بیٹھک میں آکراپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد چھٹی ہوگئی۔
اگلے دن میرا دل دھک دھک کر رہا تھا کہ کہیں ماسٹر صاحب کو میرے فراڈ کا پتا نہ چل گیا ہو‘ لیکن شاید میری چال کام کر گئی تھی‘ ماسٹر صاحب کو کچھ پتا نہ چل سکا اور میں اطمینان سے ٹیوشن پڑھتا رہا۔دوسرا مہینہ ختم ہوا تو میں نے پھر یہی طریقہ اختیار کیا اور صاف بچ نکلا۔اب مجھے بھی اطمینان ہوگیا تھا کہ کچھ نہیں ہونے والا لہٰذا ہر دفعہ جیسے ہی فیس دینے کی باری آتی‘ میں کمرے میں جاتا اور گردن اکڑائے باہر آجاتا۔
اب مجھے ماسٹر صاحب سے ٹیوشن پڑھنے میں زیادہ مزہ آنے لگا تھا ،کیونکہ اب مجھ میں اعتماد آگیا تھا کہ بہرحال اب میں ’’فیس‘‘ ادا کرکے ٹیوشن پڑھ رہا ہوں۔چھ ماہ تک میں نے اورمفت ٹیوشن کے مزے لوٹے۔ اس کے بعد سالانہ امتحان ہوگئے ساتھ ٹیوشن بھی ختم ہوگئی۔میٹرک کے نتائج کے اعلان سے پہلے دو ماہ کی چھٹیاں تھیں ، میں نے خوب ناول پڑھے اور دوستوں کے ساتھ ہاکی اور ٹیبل ٹینس کھیلا۔ہم دوست جب بھی گراؤنڈ کی طرف جارہے ہوتے تو اکثر راستے میں ہمیں ماسٹر صاحب مل جاتے‘ ہم سب انہیں سلام کرتے‘ میں دل ہی دل میں قہقہے لگاتا کہ میں نے چھ ماہ تک ماسٹر صاحب کو پوری فیس ادا کرکے مفت ٹیوشن پڑھی ہے۔
1992 ء میں ماسٹر شفیع انتقال کرگئے‘ میں ان کے جنازے میں شریک ہوا تھا اور دل ہی دل میں اُن سے اپنی حرکت کی معافی مانگی ۔لگ بھگ 22 سال بعد میری ملاقات اپنے ٹیوشن کے ایک ساتھی علی عباس سے ہوئی ‘ وہ ایک معروف الیکٹرانکس کمپنی میں مارکیٹنگ ہیڈ ہے‘ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے‘ ملتان کی یادیں اور بچپن کی شرارتیں یاد کیں۔میں نے ہنستے ہوئے علی عباس کو اپنی ٹیوشن فیس والی حرکت بتائی۔۔۔میری بات سن کر وہ یکدم سکتے میں آگیا‘ پھر بے اختیار اس کی پلکوں کے گوشے نم ہوگئے۔
میں گھبرا گیا کہ کہیں میری حرکت کا خمیازہ علی عباس کو تو نہیں بھگتناپڑا لیکن علی عباس نے ایک ایسی بات کہی کہ میرا پورا وجود برف ہوگیا۔کہنے لگا’’ ماسٹر شفیع سے ٹیوشن پڑھنے والا ہر طالب علم یہی کیا کرتا تھا۔"ہم دونوں ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہے،کچھ نہ بولے۔ ہم نے اچھا نہیں کیا تھا۔ اپنے اُستاد کو دھوکا دیا تھااور استاد نے سب کچھ جانتے ہوئے شاگردوں سے شکوہ نہ کیا۔ ماسٹر شفیع، آج میں بہت شرمندہ ہوں۔