• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان صرف ایک ملک نہیں بلکہ ایک نظریہ بھی ہے۔ پاکستان پر حملہ ایک نظریے پر حملہ ہے ۔ پاکستان پر اندر سے بھی حملے ہو رہے ہیں اور باہر سے بھی ہو رہے ہیں۔دشمن اپنے بھی ہیں اور پرائے بھی ہیں۔ پرائے دشمن بڑی مہارت اور عیاری سے ہماری غلطیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ماضی کی نا انصافیوں پر اپنی ہی ریاست سے ناراض ہو جانے والے نوجوانوں کو ان کے اپنوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے ۔ دشمن نا صرف ہماری تاریخ پر بلکہ ہماری امید پر بھی حملہ آور ہے ۔ زیارت میں قائد اعظم  کی رہائش گاہ پر حملہ دراصل پاکستان کی تاریخ پر حملہ تھا ۔ کوئٹہ میں یونیورسٹی کی طالبات پر حملہ دراصل قوم کی ان امیدوں پر حملہ تھا جو ہمیں انپی نئی نسل سے وابستہ ہیں ۔ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی طالبات پر حملے کی ذمہ داری کا لعدم لشکر جھنگوی نے قبول کر لی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ طالبات کی بس پر خودکش حملہ کرنے والی ایک خاتون تھی اور بعدازاں زخمی طالبات اور ان کے لواحقین پر بولان میڈیکل کمپلکس میں خودکش حملہ کرنے والوں کا تعلق بھی لشکر جھنگوی سے تھا ۔ کالعدم تنظیم کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق طالبات پر حملہ چند دن قبل خروٹ آباد میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے اس تنظیم کے خلاف ایک آپریشن کا جواب تھا ۔ سمجھ نہیں آتی کہ یونیورسٹی سے واپس گھر جانے والی معصوم طالبات پر خودکش حملہ کرنے والے کہاں کے مسلمان ہیں ؟ ہم نے تو اسلامی تعلیمات کی کتابوں میں یہی پڑھا ہے کہ ہمارے دین میں بے گناہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا خون بہانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے ۔ جنگ کے دوران دشمن کا ناک، ہونٹ، ہاتھ، کان اور سر کاٹنے کی بھی سخت ممانعت ہے ۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم نے مجاہدین کے ایک دستے کو جنگ کیلئے روانہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بوڑھے افراد کو قتل نہ کرنا، چھوٹے بچوں اور عورتوں کو قتل مت کرنا اور ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہ کرنا ۔ اگر حالت جنگ میں بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کا قتل غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے تو یونیورسٹی سے گھر واپس جانے والی طالبات کا خون بہانا اسلام کیسے ہو سکتا ہے ؟ ہماری بیٹیوں اور بہنوں پر حملہ کرنے والے صرف پاکستان کے نہیں بلکہ دین اسلام اور پوری انسانیت کے دشمن ہیں ۔ نہتی طالبات پر حملے کی منصوبہ بندی کرنیوالے دنیا کے بزدل ترین انسان ہیں اور اسلام کے ان دشمنوں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون یا ہمدردی کرنیوالے اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کے مستحق ہیں ۔
زیارت میں قائد اعظم  ریذیڈنسی پر حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے ۔ بی ایل اے کی اس کارروائی کا نشانہ صرف ہماری تاریخ نہیں بلکہ بلوچستان کی نئی حکومت کا عزم و حوصلہ بھی ہے ۔ بی ایل اے والے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، حاصل بزنجو اور اختر مینگل سمیت ان تمام بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے سخت ناراض ہیں جنہوں نے 2013ء کے انتخابات میں حصہ لیا ۔ بی ایل اے ان بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو بلوچوں کا غدار قرار دیتی ہے اور دوسری طرف کچھ طاقتور ریاستی ادارے بھی بلوچ قوم پرست رہنماؤں کو غدار سمجھتے ہیں کیونکہ وہ بلوچوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں ہمیں اس حقیقت میں کوئی شک نہیں رہنا چاہئے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سنبھال کر اپنا سیاسی کیریئر داؤ پر لگا دیا ہے اندرونی و بیرونی دشمن پوری کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر صاحب کا انجام وہی ہو جو خیبر پختونخوا میں اسفند یار ولی کا ہوا ہے ۔ اسلام آباد والے یاد رکھیں کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی کامیابی پاکستان کی کامیابی اور انکی ناکامی پاکستان کی ناکامی ہو گی ۔ ڈاکٹر صاحب نے بلوچستان کے حالات کو معمول پر لانے کیلئے ایک سادہ فارمولا پیش کیا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اگر ان پر دہشت گردی کا الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کو سزا دلوائی جائے ۔ ان مطالبات کی حمایت کرنے والوں پر ملک دشمنی کا الزام لگا کر ان کا منہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بھی خفیہ اداروں اور سکیورٹی فورسز کی ناکامیوں پر سوال اٹھائے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھارتی ایجنٹ ہے تاکہ کسی کو یہ پوچھنے کی جرات نہ ہو کہ جس دن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا اس دن خضدار اور بولان میں پانچ مسخ شدہ لاشیں کس نے پھینکیں؟ یہ درست ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں ہماری سکیورٹی فورسز نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ بولان میڈیکل کمپلکس کے اندر حملے میں جہاں ڈاکٹر اور نرسیں شہید ہوئیں وہاں ایف سی کے چار جوان بھی شہید ہوئے لیکن کیا یہ بھی سچ نہیں کہ لاپتہ افراد، مسخ شدہ لاشوں اور اکبر بگٹی قتل کیس نے عام بلوچوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے، سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی قربانیوں کا ذکر تو کیا جاتا ہے لیکن چند طاقتور لوگ اپنی انا کے بت کو قربان کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور اس انا کی خاطر مسلسل یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے غاصب قرار دیئے گئے سابق ڈکٹیٹر مشرف کو کسی مقدمے میں سزا نہ ہو ۔ کچھ لوگوں کیلئے پاکستان کے مستقبل سے زیادہ اہمیت مشرف کے مستقبل کی ہے ۔ مشرف پر تنقید کو فوج اور آئی ایس آئی پر تنقید سے تعبیر کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن ان کی حب الوطنی کا محور ہمیشہ سے کوئی نہ کوئی جھوٹ رہا ہے ۔ وہ نہیں جانتے کہ قائد اعظم  نے سچ کی طاقت سے پاکستان بنایا تھا اور پاکستان کو صرف سچ کی طاقت سے بچایا جا سکتا ہے ۔ سچ بولنے والوں کو بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی طرف سے آئی ایس آئی اور آئی ایس آئی کی طرف سے بی ایل اے ، بھارت اور امریکہ کا ایجنٹ کہا جاتا ہے ۔جنرل پرویزہفتے کی شام جیو نیوز پر منصور علی خان نے مجھ سے سوال پوچھا کہ ڈیرہ بگٹی سے بے دخل کئے گئے سینکڑوں افراد دو ماہ سے اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھے ہیں وہ ڈیر ہ بگٹی واپس کیوں نہیں جاسکتے ؟ میں نے جواب میں کہا کہ شاید اس لئے کہ جن لوگوں کا ڈیرہ بگٹی پر کنٹرول ہے وہ سیاسی حکومت سے زیادہ طاقتور ہیں ۔ میرے اس جواب کے بعد کچھ طاقتور لوگ غصے میں پاگل ہو گئے لیکن غصہ منصور علی خان کے سوال کا جواب نہیں ہے ۔ جواب تو دینا پڑے گا ۔ ہمیں بتایا جائے کہ مشرف دور میں ڈیرہ بگٹی سے جن لوگوں کو نکالا گیا وہ اپنے گھروں کو واپس کیوں نہیں جا سکتے ؟ مشرف کی پالیسی نے بلوچستان میں نفرتوں اور بغاوت کو جنم دیا یہ پاکستان دشمن پالیسی کب ختم ہو گی؟ مشرف بھی غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھا ، بی ایل اے کا ایجنڈا بھی غیر ملکی طاقتوں کے تابع ہے ، لشکر جھنگوی اور ٹی ٹی پی کی کارروائیوں سے بھی دشمنوں کو فائدہ ہوتا ہے کیا ہم قائد اعظم  کے نظریات کی روشنی میں ایک پاکستانی پالیسی کے ذریعہ پاکستان کو نہیں چلا سکتے ؟ آئیے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر عہد کریں کہ اگر ہم پاکستان کے وفادارہیں تو حب الوطنی کے نام پر جھوٹ بولنے والوں کو بے نقاب کرکے قائد اعظم  کے پاکستان کو مضبوط بنائیں گے۔
تازہ ترین