• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے ایک 10 رکنی بینچ نے 4 کے مقابلے میں 6 کی اکثریت سے اپنے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس میں ایف بی آر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام غیرملکی جائیدادوں کی چھان بین کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے نام ٹیکس کے بقایا جات کے بارے میں تحقیقات کو بھی ناقابل سماعت قرار دے دیا گیا۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیاہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ساتھ ساتھ کسی بھی فورم کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ جسٹس عیسیٰ اور ان کی فیملی کے بارے میں اس مقدمے پر مزید کوئی اقدام کرے۔

عدالت کے اس فیصلے نے جسٹس عیسیٰ کو برطانیہ میں اپنی بیوی اور بچوں کے نام سے جائیدادیں رکھنے کے الزام سے نہ صرف بری قرار دیا بلکہ حدیبیہ پیپر ملز کے فیصلے کی طرز پر ان کے خلاف اس معاملے میں کسی بھی کارروائی کو غیرقانونی قرار دے کر جسٹس عیسیٰ اور ان کی فیملی کو گویاقانون سے ماورا قرار دے دیا ہے۔ جہاں عدالت کے اپنے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دینے سے ایک آئینی تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے وہاں اس مقدمے پر مزید کارروائی کرنے سے روکے جانے پر اخلاقی خدشات بھی جنم لے سکتے ہیں۔

یہ محض حسن اتفاق ہی ہو سکتا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ کھولنے سے متعلق عدالتِ عظمیٰ کے بینچ کے ممبر کی حیثیت سے اپنے فیصلے میں جسٹس عیسیٰ نے کسی بھی دستیاب فورم میں اس معاملے میں نہ صرف مزید کارروائی پر پابندی عائد کی تھی بلکہ انہوں نے اس فیصلے پر میڈیا کو بھی کسی قسم کی بحث سے روکنے کا حکم صادر کیا تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنے احکامات پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس ضمن میں پیمرا کو بھی عدالتی حکم پر من وعن عملدرآمد کروانے کی ہدایت کی تھی۔ آخرکار ایسے کون سے عوامل کارفرما تھے جنہوں نے عدالت عظمی کو اپنے سابقہ فیصلے کو واپس لینے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں کسی بھی ریاستی ادارے کو مزید تفتیش کرنے سے باز رکھنے پر مجبور کیا؟

یہ مقدمہ انتہائی سیدھا ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے قائم ایسٹ ریکوری یونٹ نے جسٹس عیسیٰ اور ان کے خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کی تحقیقات کیں جس کے بعد معلوم ہوا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام لندن میں تین خفیہ جائیدادیں ہیں۔ ان کی 270,000 پائونڈز مالیت کی ایک جائیداد لندن کے علاقے 4 اوکڈیل میں واقع ہے ۔ دوسری جائیداد لندن کے ہی علاقے 90۔ ایڈی لیڈ روڈ پر خریدی گئی جس کی مالیت 245,000 پونڈز ہے جبکہ تیسری جائیداد 50۔ کونسٹن کورٹ کے علاقے میں جس کی موجودہ مالیت 600,000 پونڈز بنتی ہے۔ ان جائیدادوں کی خریدوفروخت کا نہ تو کہیں حساب کتاب میں ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی جسٹس عیسیٰ کے اثاثوں سے متعلق دائرمصالحتی بیانات میں کہیں ان کا ذکر موجود تھا۔ انہی حقائق کی روشنی میں صدر پاکستان نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس دائر کیا جس میں کہا گیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں اور آئین کے آرٹیکل 209(6) کے تحت رپورٹ پیش کریں۔

بلاشبہ جسٹس عیسیٰ عدالتِ عظمیٰ کے جج ہیں لیکن سب سے پہلے وہ پاکستان کے شہری ہیں اور اس ناطے ان کے کچھ حقوق ہیں اور ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں کے جج اپنے فرائض منصبی ملکی آئین کے تحت سرانجام دینے اور سپریم جوڈیشل کونسل کے وضع کردہ ضابطہ اخلاق پر مکمل عمل کرنے کے پابند ہیں۔ ماضی میں صدر مملکت بمقابل جسٹس شوکت علی بحوالہ پی ایل ڈی1971ء سپریم کورٹ 585 میں بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے واضح ہدایت موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمارے خیال میں معزز جج کو اعلیٰ اقدار کا پاسدار ہونا چاہئے ۔ اسے نہ صرف کسی ایسی کارروائی سے گریز کرنا چاہئے جو اس کے رتبے کے برعکس ہو بلکہ ایسے عمل سے بھی گریز کرنا چاہئے جس سے کوئی ناجائز امر مانع واقع ہونے کا شک بھی ہو‘‘۔

مذکورہ بالا حقائق سے دو الگ الگ یعنی آئینی اور اخلاقی تقاضے سامنے آتے ہیں۔ بطور جج ا سکا دونوں پر پورا اترنا لازم ہے۔ اسے اپنے فیصلوں سے دوسروں کے لئے ایسا معیار قائم کرنا چاہئے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ وہ نہ صرف بلا امتیاز سب کے لئے انصاف کی فراہمی کا سرچشمہ ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے لئے ایسے رول ماڈل کے طورپر بھی پیش کرے کہ اس کی پیروی کرتے ہوئے فخر محسوس ہو۔ اس مقدمے میں قاضی فائز عیسیٰ کو کرنا تو یہ چاہئے تھا کہ جب ان کا معاملہ صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل میں گیا تو اس پر کوئی بھی حتمی فیصلہ آنے تک خودکو عدالت سے الگ کر لیتے لیکن ایسا راستہ اختیار کرنے کی بجائے انہوں نے سب کچھ اس کے برعکس کیا، وہ نہ صرف عدالت کا حصہ بنے رہے بلکہ اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کے سامنے بھی خود بحیثیت وکیل پیش ہوتے رہے ۔

یہاں اس بات کا اظہار کرنا انتہائی تکلیف دہ ہے کہ عدالت عظمی کے سامنے رکھے گئے مقدمہ میں 3 سوالات سامنے تھے جو جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کے غیرملکی اکائونٹس ، ان اکائونٹس کے ذریعے کی جانے والی ادائیگیوں اور خریداری پر اٹھنے والے اخراجات کی تفصیلات فراہم کرنے سے متعلق تھے لیکن بدقسمتی سے عدالتی کارروائی کے دوران یہ تینوں بنیادی سوالات زیربحث نہیں لائے گئے بلکہ جسٹس عیسیٰ کیس کے آغاز سے ہی اپنے اور اپنے اہل خانہ کو پہنچائی گئی تکلیف کی شاکی رہے اور پوری کارروائی کے دوران وہ اسی موقف کو دہراتے نظر آئے۔ اگرچہ آنے والے وقتوں میں آئینی ماہرین اس مقدمے کی قانونی پیچیدگیوں پر بحث کرتے رہیں گے لیکن مجھے ذاتی طورپر اس بات کا شدید رنج ہے کہ مذکورہ مقدمے میں اخلاقی پہلو کو صریحاً نظرانداز کیا گیا۔ہمارا معاشرہ جو پہلے ہی اخلاقی طورپر تنزلی کا شکار ہے اس کی نظریں عدلیہ پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کرے گی جو ریاست کو اخلاقی بحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔

بلاشبہ عدلیہ انتہائی اہم ہے ، جج صاحبان بھی اہم ہیں لیکن انصاف کے تقاضوں سے زیادہ نہیں۔ عدالت کو مقدمے کا فیصلہ کرنے میں قانون اور جذبات کے درمیان ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے اور انتخاب قانون کے تقاضوں کا ہی ہونا چاہئے۔

(صاحب تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین