اسلام آباد(نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ کے جسٹس منظور احمدملک 65سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں ، اس حوالے سے جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں ان کے اعزاز میں ایک الوداعی ریفرنس منعقد کیا گیا ،جس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے فاضل جج کی خدمات کو سراہا ،چیف جسٹس گلزار احمد نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس منظور ملک کی عدلیہ کیلئے خدمات سے وکلا اور ججز ہمیشہ مستفید ہوتے رہیں گے،جسٹس منظور کے بہترین اور تاریخی فیصلوں میں ایک فیصلہ ذہنی امراض میں مبتلا قیدیوں کا ہے،یہ فیصلہ عدلیہ کی تاریخ میں ہماری رہنمائی کرتا رہے گا،یہ وہ موضوع ہے جس پر پہلے کوئی فیصلہ موجود نہیں،جسٹس منظور کے فیصلے کی تعریف اقدام متحدہ کے ماہرین نے بھی کی،اقوام متحدہ نے جسٹس منظور احمد ملک کا یہ فیصلہ دنیا کو بطور نظیر استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے،جسٹس منظور احمد ملک کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ،سبکدوش ہونے والے جج ،مسٹرجسٹس منظور ملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فوجداری مقدمات کی وکالت ہمیشہ سے میرا شوق تھا،میں سمجھتا ہوں کہ مجھے فوجداری مقدمات سے متعلق عہدے کیلئے ہی بنایا گیا ہے،اپنے کورٹ سٹاف کا مشکور ہوں، ان کے بغیر اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتا تھا،اٹارنی جنرل، خالد جاوید خان نے خطاب کے دوران چیف جسٹس کو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت حاصل از خود نوٹس اختیارات کے استعمال کیلئے کچھ معروضی رہنما اصولوں اور طریقہ کارتشکیل دینے کا مطالبہ کیا تاکہ اس کے ضرورت سے زیادہ استعمال ہونے کے امکانات کو روکا جاسکے، انہوںنے چیف جسٹس گلزار احمد سے استدعا کی کہ وہ اس سلسلے میں رہنما اصول اور طریقہ کار مہیا کریں، انہوںنے فاضل چیف جسٹس کی توجہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دیئے گئے اختیارات کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ اس اختیار کو موجودہ عدالت نے انتہائی احتیاط کیساتھ انتہائی ضرورت کے تحت ہی استعمال کیاہے ،انہوںنے کہا کہ مستقبل میں بھی اس کے ضروری استعمال کے حوالے سے کچھ معروضی رہنما اصولوں اور طریقہ کارتشکیل دیے جانے چاہییں ، انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کی قیادت چیف جسٹس کے سپرد ہے اور ان کے دونوں جانب (دائیں بائیں) غیر معمولی قانونی دماغ (ججز) بیٹھے ہوئے ہیں ، انہوں نے کہا کہ جسٹس منظور ملک انتہائی اعلیٰ درجہ کی حس مزاح کے مالک ہیں جس کا میں نے خود مشاہدہ کیاہے ،انہوںنے یاد دلایا کہ ایک بار لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر وکیل کیس کے تحریری خلاصہ پر زور دے رہے تھے جبکہ بنچ کے اراکین ان کی زبانی گذارشات پر سماعت کرنا چاہتے تھے ،لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہورہے تھے ،جس پر جسٹس منظور ملک نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگرمیڈم نور جہاں نے گانے گانے بجانے کے بجائے سامعین کو تحریری طور پر اپنے گانے بھیج دیئے ہوتے تو کیا ہوتا؟ جس پر ان وکیل صاحب نے زبانی گذارشات پر رضامندی ظاہر کردی ، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدلیہ کے اندر خواتین اور اقلیتوں کا اضافہ ہونا چاہے۔