• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭… رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اسی اثنا میں اْدھر سے ایک تانگہ گزرا۔ مجاز نے اسے آواز دی، تانگہ رُک گیا۔ مجاز اس کے قریب آئے اور لہرا کر بولے: "جناب، صدر جاؤگے؟“ تانگے والے نے جواب دیا: "ہاں، جاؤں گا۔” "اچھا تو جاؤ……..!” یہ کہہ کر مجاز لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

٭… مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا: "مجاز! تم نے کباب بیچنے کیوں بند کر دیے؟” "آپ کے ہاں سے گوشت آنا جو بند ہو گیا۔” مجاز نے اُسی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا۔

٭… مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو اُن کو جانتے نہیں تھے، اُن کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سُری آواز میں گنگنانا شروع کیا: "احمقوں کی کمی نہیں غالبؔ، ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔” مجاز نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: "ڈھونڈنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے حضرت! خود بخود تشریف لے آتے ہیں۔

٭… مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سُن رہے تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیرخوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔ مجاز نے اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا: "بھئی! یہ نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟

٭…کسی صاحب نے ایک بار مجاز سے پوچھا: "کیوں صاحب! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر کچھ اعتراض نہیں کرتے؟” مجاز نے کہا: "جی نہیں۔” پوچھنے والے نے کہا: "کیوں؟” مجاز نے کہا: "لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، مگر میرے والدین سعادت مند ہیں۔

٭… عبدالحمید عدمؔ کو کسی صاحب نے ایک بار جوشؔ سے ملایا اور کہا: "یہ عدم ہیں۔” عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔ جوشؔ نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے: "عدمؔ یہ ہے تو وجود کیا ہوگا؟

٭… جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اُردو میں خط لکھا، لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوشؔ نے لکھا: "جنابِ والا، مَیں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا، لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔

٭… جوشؔ کے ساتھ مولانا مودودی کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے، تو جوشؔ صاحب نے وجہ پوچھی۔ کہنے لگے: "کیا بتاؤں جوشؔ صاحب، پہلے ایک گردے میں پتھری تھی، اس کا آپریشن ہوا۔ اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔ میں سمجھ گیا۔” (جوشؔ صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا) "اللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔

٭…کسی مشاعرے میں ایک "نو مشق شاعر” اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔ اکثر شعرا آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوشؔ صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر داد و تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔ گوپی ناتھ امنؔ نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: "قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟” جوشؔ صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: "منافقت۔” اور پھر داد دینے میں مصروف ہوگئے۔

تازہ ترین