بالآخر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی آمدنی سے زائد اثاثوں کے مقدمہ میں ضمانت ہو ہی گئی، انہیں دوسری بار جیل سے باہر آنے میں 6ماہ کا عرصہ لگ گیا۔
انہیں بھی اپنے بھائی کی طرح بار بار ’’جیل یاترا‘‘ کا تجربہ ہو گیا ہے۔ نیب قوانین کے تحت ’’ملزم ‘‘ کو خود اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوتی ہے اگر اس قانون کے تحت کسی گدا گر کو جیل بھجوا دیا جائے تو وہ بھی اپنے ’’جائز ‘‘ ذرائع آمدنی کو ثابت نہیں کر سکتا۔
عام تاثر یہ تھا کہ شہباز شریف کے جیل جانے سے پارٹی قیادت مریم نواز کے پاس آگئی ہے اور پارٹی کے بارے میں سارے فیصلے وہ خود کر رہی ہیں لیکن شہباز شریف کی واپسی کے بعد پارٹی کے فیصلے اب شہباز شریف کریں گے ۔
حکومتی حلقوں کی جانب سے شروع دن سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ شہباز شریف کی رہائی کسی’’ ڈیل‘‘ کا نتیجہ ہے۔ آنے والے دنوں میں مریم نواز کی پارٹی امور میں مداخلت کم ہو جائے گی ۔
ریاستی اداروں سے تصادم کی پالیسی میں ’’یو ٹرن ‘‘آ جائے گا لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں،نیب ان کے خلاف کیس ہی نہیں بنا سکا اگر ڈیل کے نتیجے میں رہائی ممکن ہوتی تو بہت پہلے انہیں رہائی حاصل ہو جاتی۔
شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں معتدل مزاج رکھنے والے سیاست دان ہیں۔ جہاں تک پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا تعلق ہے ان کے بارے میں ہارڈ لائنر ہیں ۔ پی ڈی ایم کے قیام کو ہفتہ عشرہ بھی نہیں ہوا تھا کہ انہیں نیب نے اپنا ’’مہمان‘‘ بنا لیا تھا۔
مختلف حیلوں ،بہانوں سے ان کی ’’جیل یاترا‘‘ کو طوالت دی گئی اس دوران ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی طویل قید کے بعد ضمانت پر رہائی ہو گئی لیکن شہباز شریف کی کبھی ضمانت ہو جاتی کبھی منسوخ‘ بالآخر لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے متفقہ طور پران کی ضمانت منظور کر لی ۔
ان کی ضمانت سے یقیناً حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے ۔قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے پارلیمان کے امن کو تباہ کرنا تو قبول کر لیا لیکن ’’اوپر‘‘ سے حکم پر شہباز شریف ، خواجہ آصف اور سید خورشید شاہ کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا ۔
دلچسپ امر ہے کہ ادھر شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی ہوئی ادھر صدر ِمملکت نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت پارلیمان میں اپوزیشن لیڈر کو دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔
سر دست شہباز شریف نے رہائی کے بعد کورونا کی بڑھتی ہوئی وبا کے پیش نظر اپنی سرگرمیاں محدود کر دی ہیں ۔تاہم اس دوران روزانہ ہی ان کی ٹیلیفون پر اپنے قائد نواز شریف سے بات چیت ہوتی رہتی ہے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت اپوزیشن کے کئی لیڈر شہباز شریف سے ٹیلی فون پر بات چیت کر چکے ہیں۔
مسلم لیگی ارکان اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز بھی گروپوں کی صورت میں ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔
عام تاثر یہ تھا کہ شہباز شریف کی رہائی کے بعد مریم نواز ’’چپ‘‘ کا روزہ رکھ لیں گی لیکن انہوں نے پہلے روز ہی پریس ٹاک کر کے یہ تاثر زائل کر دیا۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کا ایک بڑا گروپ مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں سے رابطے میں ہے۔
حکومت کے ترجمان فواد حسین چوہدری نے بھی سیاسی تلخیاں کم کرنے کا عندیہ دیا ہے معلوم نہیں وہ اپنے اس بیان کے بارے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔تاہم انہوں نے کہا ہے کہ شہباز شریف کی رہائی کے بعد مریم نواز کے سیاسی مستقبل کا پتہ نہیں،مسلم لیگ (ن) کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہ سیاسی ماحول میں تلخی بڑھانا چاہتی ہے۔
شہباز شریف سے چیدہ چیدہ رہنمائوں کی ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی ہے لیکن تاحال آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری اور اسفند یار ولی کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ لگتا ہے پکی’’ کٹی ‘‘ہو گئی ہے۔رواں ہفتہ جمعیت علمائےاسلام اور پیپلز پارٹی کے درمیان ’’بیک ڈور ‘‘چینل پر رابطہ ہوا ہے.
مولانا فضل الرحمٰن سے آصف زرداری کے معتمد خاص قیوم سومرو نے دو تین ملاقاتیں کی ہیں۔ ملاقات میں پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی کے بارے میں تبادلۂ خیال ہوا ہے، قیوم سومرو نے آصف علی زرداری کا پیغام مولانا فضل الرحمٰن کو پہنچایا ہے.
انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تسلیم کر کے تلخی کی صورت حال پر ’’مٹی‘‘ ڈالنے کی استدعا کی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی اپنے اصولی موقف سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ۔ شنید ہے پیپلز پارٹی اپنی دو غلطیوں کا اعتراف کر رہی ہے۔
اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کے طریقہ اور شو کاز نوٹس پھاڑنے کے عمل پر نادم ہے اور کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی کو مدعو کیا جائے تاہم این اے249 کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان صلح میں حائل ہو سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کر دیا ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی اپوزیشن لیڈر کا منصب پی ڈی ایم کے سامنے سرنڈر کرے پھر اس بارے میں پی ڈی ایم کوئی فیصلہ کرے گی۔
سیاسی حلقوں میں مریم نواز کی لندن جانے کی ’’افواہ ‘‘ گردش کر رہی ہے لیکن اس بارے میں تا حال مسلم لیگی حلقوں نے تردید کی ہے اور نہ ہی تصدیق۔
تاہم یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مریم نواز کے لب و لہجہ میں قدرے نرمی آجائے گی لیکن تاحال مریم نواز کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگر مریم نواز برطانیہ چلی بھی جائیں تو شہباز شریف پارٹی کی قیادت کرنے کے لئے پاکستان میں موجود ہیں۔
مریم نواز نے نواز شریف اور شہباز شریف کی عدم موجودگی میں قیادت کا خلا پیدا نہیں ہونے دیا، جب سے مریم نواز نے سیاسی حکومت کے 5 سال پورے کرنے کی بات کی ہے پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے بیان داغ دیا ہے کہ’’ پانچ سال پورے کرنے کی گارنٹی کس نے کس کو دی ہے ؟ ‘‘
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہو چکا ہے جس میں پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو پی ڈی ایم میں واپس لینے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا البتہ مولانا فضل الرحمٰن نے دونوں جماعتوں کو شوکاز نوٹس کا جواب دینے کا ایک اور موقع دیا ہے۔
ماہ رمضان المبارک میں پی ڈی ایم کا تنازعہ حل ہونے کا امکان نہیں۔
مریم نواز اسلام آبادہائی کورٹ میں پیشی کے لئے اسلام آباد آئی تھیں اس موقع پر پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منعقد ہونا تھا جو مولانا فضل الرحمٰن نے بوجوہ عید الفطر کے بعد تک مؤخر کر دیا ہے۔