• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب حکومت کے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے کانفیڈنشل ونگ نے وفاقی حکومت کی جبری ریٹائرمنٹ کی پالیسی پر عملدرآمد کروانے کے لئے صوبے کے تمام انتظامی سیکرٹریوں کو اپنے اپنے محکموں کے ورکنگ پیپرز جمع کروانے کے لئے کہہ دیا ہے۔ جن رولز کے تحت پنجاب میں فیڈرل اور صوبائی سروسز کے افسروں کو جبری ریٹائر کرنے کے لئے تیاری شروع کی گئی ہے ان میں پنجاب سول سرونٹس (ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ فرام سروس) رولز 2021کے رول 6(1)اور 6(2)شامل ہیں۔ رول 6(1)کے تحت بنائی جانے والے فہرستوں میں وہ افسر آئیں گے جو اپنی سروس کے 20سال مکمل کر چکے ہیں اور رول 6(2)کے تحت ریٹائرمنٹ بورڈ افسروں کی کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ پنجاب میں چیف سیکرٹری کو ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ بورڈ کا سربراہ بنایا گیا ہے جو اپنی سفارشات وزیراعلیٰ کو پیش کرے گا۔ گریڈ 18اور اس سے اوپر کے تمام فیڈرل اور صوبائی سروس کے افسروں کو نوکریوں سے جبری ریٹائر کرنے کا حتمی اختیار وزیراعلیٰ کے پاس ہوگا۔ وفاق میں بورڈ کے سربراہ چیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہیں لیکن پنجاب میں اختیارات چیف سیکرٹری کو دیے گئے ہیں۔ وفاق کی طرح پنجاب میں بھی گریڈ 17تک کے افسران کی ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ کیلئے اختیارات متعلقہ محکموں کے انتظامی سیکرٹریوں کی سربراہی میں کمیٹیوں کے پاس ہوں گے جن میں محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے ریگولیشن ونگ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔ ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ کی زد میں مختلف خود مختار اداروں جن میں ٹیوٹا اور پنجاب سیڈ کارپوریشن سمیت دیگر ادارے شامل ہیں، کے چیف ایگزیکٹو افسر بھی آئیں گے۔ جبری ریٹائرمنٹ کی پالیسی کتنی موثر ہوگی، یہ ایک لمبی اور پیچیدہ بحث ہے۔ جن افسروں کو اس پالیسی کی زد میں آنے کا تھوڑا بہت بھی یقین ہے ،انہوں نے عدالتوں سے حکم امتناعی لے لئے ہیں لیکن فکر نہ کریں وہ شاید زیادہ دیر تک نہ چل پائیں کیونکہ حکومت کو پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے سے کون سا ادارہ روکے گا؟ کئی وفاقی افسر ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ پالیسی پر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے گئے تو انہیں جواب ملا کہ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ آپ افسروں پر حکومت کی طرف سے کوئی ظلم ہوا ہے اور اس حوالے سے CALLS OF ACTIONبھی نہ ہوں تو حکم امتناعی کیسے جاری کردیا جائے۔ حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی پالیسی اس وقت ہی چیلنج ہوگی جب اس پر عملدرآمد ہوگا۔ اب یہ بات چند افسران کو کون سمجھائے۔ جبری ریٹائر کرنے کی پالیسی تو 1973کے سول سرونٹس رولز میں پہلے ہی موجود تھی لیکن یہ آپریشنلائزڈ نہ تھی۔ پی ٹی آئی کی پنجاب اور کے پی میں چونکہ حکومت ہے اسلئے DEAD WOODکو ہٹانے کیلئے وہ جبری ریٹائرمنٹ کو اپنی فلیگ شپ ریفارمز کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ کئی بلکہ اکثر سینئر سول سرونٹس کو جبری ریٹائرمنٹ پالیسی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ان کے خیال میں CARROT AND STICKاپروچ اکٹھی چلنی چاہئے۔ پی ٹی آئی حکومت زیادہ ڈنڈے کے زور پر کام کرنا اور کرانا چاہتی ہے لیکن دیکھا جائے تو کرپٹ افسروں کے لئے ایسا رویہ اختیار کرنے میں وہ حق بجانب بھی ہے۔ ایسے افسروں کو نوکریوں سے نکالنا ایک احسن اقدام ہے لیکن سزا کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی اور انعام دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔ جب تک حکومت اس حوالے سے آئین کی کوئی سنگین خلاف ورزی نہیں کرتی اس کو پالیسیاں بنانے اور عملدرآمد کروانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں ایک اور بات انتہائی اہم ہے کہ کسی دوسری سیاسی جماعت سے وابستگی جو کہ اکثر افسران کی رہی ہوتی ہے کو بہانہ بنا کر افسروں کو جبری ریٹائر تو نہیں کیا جائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو جبری ریٹائرمنٹ کے لئے بنائے گئے بورڈز کے پاس مارجن تو ہوتا ہے کہ حکومت کسی افسر کو سیاسی جماعت سے وابستگی پر نکالنا یا اس سے جان چھڑانا چاہتی ہو تو چانس موجود ہیں کہ سیاسی انتقام کا بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں خیر بڑے منجھے اور تگڑے بیوروکریٹس بیٹھے ہیں وہ اس طرح کی کسی بدنیتی کے ظاہر ہونے پر اکٹھے بھی ہیں اور مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو ہمارے سسٹم میں کم ہی ایسے بیوروکریٹس ہوں گے ، جن کا کردار اِس قدر اعلیٰ ہو کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی وابستگی نہ رکھتے ہیں۔ پنجاب میں چیف سیکرٹری کی سربراہی میں بننے والے بورڈ سے امید تو یہی ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ فیصلے کرے گا لیکن اس کے باجود جبری ریٹائرمنٹ پالیسی کا ثمر ملتا ہے یا نہیں اور یہ موثر ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ پنجاب میں ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ بورڈ نے مختلف محکموں کو اختیارات تفویض کرکے انتظامی سیکرٹریوں کی کنوینر شپ میں کمیٹیاں بنا دی ہیں۔ امید تو یہی کی جا رہی ہے کہ احتساب اور شفافیت دونوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور کسی کوبھی سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

تازہ ترین