• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات کو صاف و شفاف بنانے اور شکوک و شبہات سے پاک کرنے کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ایک سنجیدہ قومی موضوع ہے جس کے تکنیکی پہلوؤں پر دلائل و براہین کے ساتھ گفتگو ہونی چاہئے تاکہ اس کے عیوب اور محاسن سامنے آسکیں اور عوام کو پتہ چل سکے کہ اس کے فائدے کیا اور نقصانات کیا ہیں؟ میڈیا میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اس حوالے سے جو بیان بازی ہورہی ہے اس میں سنجیدگی کم اور سیاسی کج بحثی کا عنصر زیادہ ہے۔ تجویز چونکہ حکومت کی جانب سے آئی ہے اس لئے اپوزیشن مشین کی خرابیاں بیان کرنے سے زیادہ حکومت کے عزائم پر شکوک وشبہات کا اظہار کررہی ہے جبکہ حکومتی ترجمان اس کی خوبیاں واضح کرنے سے زیادہ اپنا زیادہ زور اپوزیشن کو ناسمجھ ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں۔ اس دوران قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی اُمور کے اجلاس میں حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال کی تجویز منظور بھی کرالی ہے۔ ای وی ایم متعارف کرانے کی تجویز انتخابی اصلاحات کے ایجنڈے کا حصہ ہے جسے حکومت قانون سازی کے ذریعے نافذ کرنا چاہتی ہے اور وزیراعظم نے اس مقصد کے لئے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے جسے اپوزیشن نے بلاتکلف مسترد کردیا ہے کیونکہ اسے حکومت کے کسی بھی کام یا اقدام پر بھروسہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے تو الیکٹرانک مشین کو دھاندلی کا منصوبہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مشین جن کی تحویل میں ہوگی وہ نتائج میں بھی خرابی پیدا کر سکتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا بھی کہنا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام تمام دنیا نے مسترد کردیا ہے اور پاکستان کا الیکشن کمیشن بھی اسے ناقابلِ عمل قرار دے چکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے راہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر کی رائے میں پاکستان میں آئے روز سیکورٹی کے نام پر انٹرنیٹ سے چھیڑ خانی ہوتی رہتی ہے اس لئے الیکٹرانک مشین کا استعمال زیادہ خطرناک ہوگا۔ نادرا کی رپورٹ بھی اس کے خلاف ہے۔ وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جو مشینیں ہم نے بنائی ہیں وہ ہیک نہیں ہوسکتیں کیونکہ انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی نہیں ہیں۔ وزیر مملکت فرخ حبیب انتخابات میں جدید ٹیکنالوجی بروئے کار لانے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے اپوزیشن کے لتے لینا نہیں بھولے اور کہا کہ دھاندلی زدہ نظام کی پیداوار انتخابی اصلاحات نہیں چاہتے۔ ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے معقول مشورہ دیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ تکنیکی ماہر احمد بلال محبوب کے دلائل میں اس لحاظ سے بڑا وزن ہے کہ بیلٹ پیپر میں نظر آتا ہے کہ کس کے نام کے آگے مہرلگی اور کس کو ووٹ دیا گیا جبکہ الیکٹرانک مشین کے نظام میں ووٹر بٹن دبائے گا۔ ٹریل میں پیپر بھی آجائے لیکن جب یہ مشین اور چپ جہاں نتائج اکٹھے ہوں گے جوڑیں گے تو اس کے اندر کیا پروگرامنگ ہوتی ہے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں چلے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ای وی ایم پر سو بلین روپے سے زیادہ خرچ ہورہے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں انتخابات کی شفافیت پر اعتماد بڑھنے کی بجائے کم ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ اسی لئے الیکشن کمیشن نے بھی اس تجویز کو مسترد کیا ہے۔ پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا تجربہ کرنے سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کو کشادہ دلی سے ان ممالک کے مشاہدات کا جائزہ لینا ہوگا جو یہ مشین استعمال کررہے ہیں یا جنہوں نےاسے ترک کردیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے فائدے بھی بہت ہیں اور مسائل بھی کم نہیں ہیں۔ اگر اس کے استعمال سے انتخابی بدعنوانیوں کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند ہوتا ہے تو اسے ضرور اختیار کیا جائے ورنہ اس پر اصرار نہ کیا جائے۔ دونوں صورتوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مکالمہ ضروری ہے اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے ۔

تازہ ترین