• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو آگے لے کر جانے کے لئے ضروری ہے کہ سیاست بھی جاری رہے اور ملک میں انتخابی، عدالتی اور انتظامی اصلاحات بھی جاری رہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات پہلی منزل ہے اور پھر اُن اصلاحات کا نفاذ آخری منزل ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کی سر پھٹول ہمیشہ رہی ہے لیکن 1970تا 1977تک کے دور میں 1973کا متفقہ آئین تشکیل دیا گیا، جو آج تک نافذالعمل ہے۔ اسی طرح 2008اور 2013کے درمیان بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی محاذ آرائی جاری رہی مگر ساتھ ہی ساتھ اٹھارہویں ترمیم بھی منظور ہوئی۔

تاریخ میں وہی حکومت اور اپوزیشن زندہ رہتی ہے جو اصلاحات کے کام کو آگے بڑھاتی ہے۔ لوگوں کو 70کی دہائی کی حکومت اور اپوزیشن کی لڑائیاں یاد نہیں رہیں، یاد ہے تو 1973کا آئین۔ اسی طرح 2008تا 2013کے درمیان زرداری اور نواز شریف میں کتنی لڑائیاں ہوئیں، کتنی بار صلح ہوئی، کسی کو یاد نہیں البتہ تاریخ نے اٹھارہویں ترمیم کو یاد رکھا ہے۔

ن لیگ کو تحریک انصاف سے احتساب اور سیاست کے حوالے سے جو اختلافات ہیں وہ قابلِ فہم ہیں، ان کی حکومت سے مذاکرات نہ کرنے کی ہزارہا سیاسی وجوہات بھی ہوں گی مگر تاریخ کا کٹہرا یہ صدا دے رہا ہے کہ اصلاحات کے کسی بھی موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین ایک جدید سائنسی ایجاد ہے، دنیا کے کئی ممالک اسے اپنا چکے ہیں حتیٰ کہ بھارت جیسا کثیر آبادی والا ملک بھی اس کا استعمال کر رہا ہے۔ ن لیگ کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے ہاں اس مشین کو کس طرح استعمال کرنا ہے، اس پر مذاکرات ہونے چاہئیں اور اس کیلئے متفقہ طریق کار طے ہونا چاہئے۔ انتخابی اصلاحات اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے مزاحمت ایک طرح سے آنے والی سائنسی اور جدید ترقی کی مخالفت ہے؎

آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

تحریک انصاف کی حکومت نے احتساب اور انتقام کے نام پر اپوزیشن کو ٹھیک ٹھاک رگڑا دیا ہے، اس لئے اپوزیشن حکومت کی طرف سے آنے والی ہر پیشکش کو ایک نیا ٹریپ یا پھندا سمجھتی ہے۔

اپوزیشن یہ سمجھنے میں حق بجانب بھی ہے، اگر وہ ایک طرف اصلاحات کے لئے آمادہ ہو اور دوسری طرف گرفتاریاں جاری رہیں تو وہ پھنس جائے گی پھر نہ اپوزیشن جیسی مخالفت کر سکے گی اور نہ حمایت کے قابل رہے گی اور دوسری طرف اصلاحات کے حوالے سے وہ حکومت کے ساتھ میل ملاقاتیں کر رہی ہو گی۔ ایسی صورتحال میں اُس کا بیچ چوراہے میں مذاق اڑے گا۔

کسی سیاسی دور کی کارکردگی کا معیار یہی ہے کہ وہ معاشرے کو کتنا آگے لے کر گیا ہے۔ 1970تا 1977سیاسی محاذ آرائی کے حوالے سے بدترین رہا۔ قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کی لڑائی اور کشمکش کے بعد ضیاء الحق کا 11سالہ مارشل لاء بھگتنا پڑا مگر چونکہ اس دہائی میں بھٹو، مفتی محمود، مولانا نورانی، ولی خان وغیرہ جیسے اکابر موجود تھے اس لئے انہوں نے 1973کے آئین کا کارنامہ بھی سر انجام دے ڈالا۔

بالکل اسی طرح 2008تا 2013کے دوران میمو گیٹ ہوا۔ نواز شریف کالا کوٹ پہن کر صدر زرداری کے خلاف سپریم کورٹ گواہی دینے پہنچے، کئی وعدے ہوئے اور کئی وعدے ٹوٹے مگر رضا ربانی کمیٹی نے اٹھارہویں ترمیم کا تاریخی کام تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ سرانجام دے ڈالا۔

اب وقت ہے کہ انتخابات کے حوالے سے اصلاحات کا ڈول ڈالا جائے۔ ہر سیاسی جماعت کو انتخابات پر اعتراضات ہوتے ہیں، رزلٹ میں تاخیر پر دھاندلی کا الزام لگتا ہے، انتخابی عملے کی لاپرواہیوں، غلطیوں یا پھر من مانیوں کی سزا حلقے کے امیدواروں کو ملتی ہے۔

کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ ساری سیاسی جماعتیں مل کر ملک کے انتخابی نظام کو جدید بنائیں؟ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اسمبلی میں بحث کریں، اس کے فوائد و نقصانات پر کھل کر بات ہو اور اگر یہ مشین دھاندلی کا مداوا کر سکتی ہے تو پھر اس کا فوری بندوبست کیا جائے اور اگلے الیکشن اسی ووٹنگ مشین کے ذریعے کروائے جائیں۔

انتخابی اصلاحات کے حوالے سے مریم نواز صاحبہ اور میاں شہباز شریف نئے سرے سے بریفنگ لیں، اگر تو اگلے الیکشن میں شفافیت چاہتے ہیں تو پھر انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پیشرفت کریں اور اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں کوئی خرابی نہیں البتہ اس کے استعمال کو درست اور جائز بنانا مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

موجودہ حکومت کا آدھے سے زیادہ وقت گزر چکا ہے، اب اسے بھی اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرنی چاہئے۔ جارحانہ رویوں کے بجائے مفاہمانہ رویہ اپنانا چاہئے۔ مذاکرات کے لئے ماحول بنانا پڑتا ہے ایک طرف گرفتاریاں ہو رہی ہوں تو دوسری طرف مذاکرات ممکن نہیں ہوتے۔ مذاکرات ہوں گے، سازگار ماحول ہوگا تو اصلاحات پر بات چیت کا مرحلہ آئے گا۔

یہ تو سب کو علم ہے کہ حکومت معاشی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اور اس کے پاس موثر گورننس کا کوئی کارگر فارمولہ نہیں ہے، ایسے میں حکومت کو سیاسی ماحول کو ٹھنڈا کرنا چاہئے تاکہ حکومت اپنی پوری توجہ ملک کو چلانے پر رکھ سکے۔ سنا گیا ہے کہ وفاقی وزراء نے وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ہمیں اس سال سیاست کو ٹھنڈا رکھنا چاہئے اور اگلے سال پھر سے اپنا محاذ کھولنا چاہئے۔ کوشش یہ کرنی چاہئے کہ اس سال قانون سازی اور انتخابی و انتظامی اصلاحات کی جائیں اور پھر اگلے سال سے آئندہ انتخابات کی سیاست کی جائے۔ دوسری طرف اپوزیشن کی سیاست میں شہباز شریف کی رہائی کے بعد جان پڑنے والی ہے، فی الحال پی ڈی ایم کی بحالی کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت اظہار وجوہ کے نوٹس پر معذرت کرے جبکہ پی ڈی ایم کی قیادت کہتی ہے کہ پیپلز پارٹی معذرت کرے۔ فی الحال یہ مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا البتہ شہباز شریف سے توقع ہے کہ وہ اپنی مفاہمتی پالیسی سے اپوزیشن کے تنِ مردہ میں نئی جان ڈال دیں گے۔ شہباز شریف کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بھی پیش رفت کرنی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ لیڈر آف دی اپوزیشن کے طور پر جب وہ اسمبلی سیشن میں شریک ہوں گے تو انہیں وہاں ایک موقف اختیار کرنا ہو گا۔

توقع کرنی چاہئے کہ ماضی کے تلخیوں کو فراموش کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک نئی صبح کا آغاز کریں۔ معاملہ انتخابی اصلاحات سے شروع کریں اور پھر قانون سازی کی جو لمبی لائن تعطل کا شکار ہے اس ساری لائن کو کلیئر کریں۔ اس حوالے سے سب سے بڑی اور اچھی خبر یہ ہو گی کہ انتخابی اصلاحات کی صورت میں اگلا انتخاب زیادہ سے زیادہ شفاف اور غیر جانبدار ہو جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین