• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری پاکستانی قوم بڑی پڑھاکو ہے۔ پڑھاکو کا مطلب سمجھتے ہیں نا آپ؟ پڑھاکو کا مطلب ہے پڑھنے والا یا پڑھنے والی۔ ہم پاکستانی پڑھنے والی قوم ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہلاکو خان کی قوم اگر پڑھاکو ہوتی، تو پھر وہ قوم ہلاکو کی قوم نہ ہوتی۔ ہلاکو کی قوم بننے کے لئے آپ کا پڑھاکو ہونا ضروری نہیں ہے۔ چونکہ ہم پڑھاکو ہیں، اس لئے ہم ہلاکو کی قوم نہیں ہیں۔ ہمارے پڑھاکو ہونے کی اگر کسی نامعقول نے تصدیق کرنے کی کوشش کی تو پھر اُس احمق کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ تصدیق کی ضرورت تب محسوس ہوتی ہے جب ثبوت سامنے نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں اعلیٰ معیار کی لائبریریوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ لائبریریاں صبح سے رات دیر گئے تک کھلی رہتی ہیں۔ جب دیکھو تمام لائبریریاں علم و ادب کے متوالوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں۔ تحقیق کے لئے مخصوص لائبریریاں پوری پوری رات کھلی رہتی ہیں۔ ریسرچ کرنے والے کتابوں کے انبار میں گم رہتے ہیں۔ یہ سب تب ہوتا ہے جب کسی ملک کے لوگ پڑھاکو ہوتے ہیں۔

اعلیٰ معیار کی لائبریریوں کے علاوہ ہمارے چھوٹے بڑے شہروں، گائوں گائوں میں ریڈنگ روم کا رواج ہے۔ لوگ اپنے گھر کے باہر کی طرف کھلنے والے کمرے میں لمبی میز پر چار پانچ اخبار اور کچھ میگزین، رسالے رکھ دیتے ہیں۔ فارغ اوقات میں لوگ ریڈنگ روم میں آکر بیٹھتے ہیں اور پہروں اخبار اور رسالے پڑھتے رہتے ہیں۔ بھرے بازاروں میں دوسری یا تیسری دکان کتابوں کی دکان ہے۔ دیگر دنیا میں لوگ جس طرح سموسوں، پکوڑوں، جلیبیوں اور دہی بڑے اور چناچاٹ کی دکانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، عین اسی طرح ہمارے ہاں لوگ کتابوں کی دکان کے اندر اور باہر کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ شاپنگ کرنے والے بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں اور مرد کپڑے لتے خریدنے کے علاوہ کتابوں سے لدے پھندے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر استعمال شدہ Second Handکتابوں کے بازار میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ پیٹ پوجا کی اشیا سے کئی گنا زیادہ سیکنڈ ہینڈ کتابوں سے بھرے ہوئے کنٹینر ملک کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ ہم پڑھاکو قوم ہیں۔ ہم کھانا پینا چھوڑ سکتے ہیں مگر پڑھنا پڑھانا کبھی نہیں چھوڑ سکتے۔ دنیا ہمیں عزت کی نگاہ سے صرف اسلئے نہیں دیکھتی کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ دنیا ہمیں عزت کی نگاہ سے اس لئے دیکھتی ہے ہم پڑھاکو قوم ہیں۔ ہمارے ہاں اعلیٰ معیار کی لائبریریوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ گلی گلی میں ریڈنگ روم ہیں۔ ہمارے بچے چار پانچ سو روپے کا برگر خرید کر کھانے کے بجائے کتاب خریدتے ہیں۔ میں بڑھا چڑھا کر بات نہیں کرتا۔ آپ ہمارے ہاں آکر خود دیکھیں۔ آپ تصدیق کرنا چاہتے ہیں نا؟ تو پھر دیر کس بات کی ہے۔ تشریف لے آئیے اور تصدیق کر لیجئے۔ ہمارے پڑھنے پڑھانے کا جنون دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

ہمارے ہاں کسی ادیب، کسی شاعر کی کتاب کی پانچ سو یا ایک ہزار کاپیاں شائع نہیں ہوتیں۔ ہمارے افسانہ نگاروں، ناول نگاروں اور شاعروں کی کتاب لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہے اور بکتی ہے۔ اس میں کمال صرف لکھنے والے کا نہیں ہے۔ سارا کمال ہماری پڑھنے پڑھانے والی قوم کا ہے۔ وہ ہر دم نئی کتاب کی منتظر رہتی ہے۔ ہمارے ہاں ادیب اپنی کتاب کی کامپلی مینٹری کاپیاں نہیں بانٹتے۔ وہ اس رواج کو معیوب سمجھتے ہیں۔ ہم خوددار ہیں۔ کسی کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ فلاں فلاں ممالک میں اخباروں کی سرکولیشن کروڑوں میں ہوتی ہے۔ ہم آبادی کے لحاظ سے بائیس کروڑ ہیں۔ پڑھنے پڑھانے کے معاملے میں ہم پاگل پن کی تمام حدیںپار کرجاتے ہیں۔ اس لئے آپ کو حیران اور پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ سرکولیشن میں ہمارے اخبار دس کروڑ سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ آپ خود آکر تصدیق کرلیں۔ آپ کا شوق پورا ہو جائے گا۔

یہ تصدیق شدہ بات ہے کہ ہم پڑھاکو ہیں۔ اس لئے ہمارے حکمراں، ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پڑھاکو ہوتے ہیں۔ آپ کبھی ہماری کسی صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کے اجلاس میں آکر بیٹھ کر تو دیکھیں۔ نظم و ضبط دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ کسی موضوع کی حمایت یا مخالفت کے دوران ہونے والا بحث مباحثہ دیکھیں اور سنیں۔ بحث کے دوران ممبران اسمبلی کی شائستگی دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ دلائل کا اعلیٰ معیار دیکھ کر آپ حیران ہو جائیں گے۔ آپ کو یقین ہو جائے گا کہ ہم پڑھاکو قوم ہیں۔ ہم ہلاکو کی قوم نہیں ہیں۔

تازہ ترین