• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اداروں کے مابین اختلافات سے بیورو کریسی مزید پست حالی کا شکار ہوگئی

اسلام آباد (انصار عباسی) اداروں کے مابین اختلافات کی وجہ سے سول بیوروکریسی مزید پست حالی کا شکار ہوگئی ہے، پاکستان صوبائی سول سروس ایسوسی ایشن نے باضابطہ طور پر چیف سیکریٹری پنجاب کیخلاف بیان جاری کیا ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب کی میڈیا ایڈوائزر فردوس عاشق اعوان کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنر سیالکوٹ کے ساتھ کیے گئے برتائو کی مذمت کی گئی ہے۔

ایسوسی ایشن نے پیر کو جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ صوبائی سروسز سے تعلق رکھنے والے افسران صوبائی حکومت کے ساتھ ہیں اور کسی بھی وفاقی سروسز اور اس کے اہم نمائندے (چیف سیکریٹری) کو ایک واقعےکی وجہ سے صوبے کو بلیک میل کرنے نہیں دیں گے

اس واقعے کی ایسوسی ایشن نے مذمت نہیں کی۔ سیالکوٹ کی اسسٹنٹ کمشنر کو اتوار کے روز فردوس عاشق اعوان نے سر عام ڈانٹا تھا، ان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس سے ہے، اور صوبائی سروسز ایسوسی ایشنش کے مطابق پی اے ایس نے صوبائی سروس کے ملازمین کے حقوق ان کے عہدوں پر قبضہ کرکے ہڑپ لیے ہیں۔

پنجاب کے چیف سیکریٹری جواد رفیق ملک نے سیالکوٹ واقعے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایڈمنسٹریٹیو افسر کے ساتھ سیالکوٹ کے رمضان بازار میں کیا جانے والا سلوک قابل مذمت تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر سونیا صدف اور دیگر ایڈمنسٹریٹیو افسران شددی گرمی اور کورونا وبا کے باوجود فرنٹ لائن (میدان) پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی افسر اور اسٹاف کے ساتھ غیر اخلاقی زبان اختیار کرنا ناقابل قبول ہے۔ صوبائی سروسز کی نمائندگی کرنے والی ایسوسی ایشن نے باضابطہ طور پر وزیراعظم عمران خان سے گزشتہ سال رابطہ کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ تمام صوبوں سے موجودہ چیف سیکریٹریز کو ہٹایا جائے اور ان کی جگہ صوبائی سول ملازمین کو رکھا جائے اور یہ کام متعلقہ صوبے کی حکومت کرے۔

آل پاکستان پی ایم ایس آفیسرز ایسوسی ایشن کے اجلاس کے بعد، ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر طارق محمود اعوان نے وزیراعظم کو خط لکھ کر اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ آئینی اسکیم کے تحت یہ وزیراعلیٰ کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ چیف سیکریٹری کو تعینات کریں نہ کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اسلام آباد کا۔ لہٰذا، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے چاروں صوبوں میں مقرر کیے گئے چیف سیکریٹریز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے کیونکہ یہ غیر آئینی اور خلافِ قانون ہے اور صرف متعلقہ صوبائی حکومت ہی چیف سیکریٹری کو مقرر کر سکتی ہے اور یہی آئین اور قانون کی روح کے مطابق ہے۔

وزیراعظم کو بتایا گیا تھا کہ آئین میں واضح لکھا ہے کہ صوبائی امور میں وفاقی اختیار استعمال کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ خط میں کہا گیا تھا کہ چیف سیکریٹری کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے تعینات کیا جانا صوبائی ایگزیکٹو کی اتھارٹی استعمال کرنے کے مترادف ہے اور یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔

صوبائی سول سرونٹس ایسوسی ایشن کی رائے ہے کہ چیف سیکریٹری کا عہدہ متعلقہ صوبائی اسمبلی کے قانونی کنٹرول میں آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹی وہاں تک جا سکتی ہے جہاں تک صوبائی اسمبلی قانون سازی کرے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ چیف سیکریٹری کا عہدہ صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹی کے ماتحت ہے کیونکہ یہ صوبائی عہدہ ہے۔

گزشتہ سال لکھے گئے اس خط میں آئین کے آرٹیکل 129 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ صوبے کی ایگزیکٹو اتھارٹی استعمال کرنا صوبائی حکومت کا کام ہے جو وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء پر مشتمل ہے، اور وزیراعلیٰ براہِ راست یا پھر صوبائی وزراء کے ذریعے یہ ایگزیکٹو اتھارٹی استمعال کر سکتے ہیں۔ خط میں کہا گیا تھا کہ صوبے کے وزیراعلیٰ کے پاس قانونی اور آئینی اختیار ہوتا ہے کہ وہ صوبے میں چیف سیکریٹری کو تعینات کریں۔

تازہ ترین