تین سال پہلے، چھ مئی 2018کو میں ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچا۔ اگرچہ مجھے لگنے والا گولی کا زخم اِن تین برسوں میں بھر چکا لیکن حالیہ عشروں کے دوران نفرت اور تشدد پر مبنی سیاست اور سیاسی مقاصد کے لئے فساد برپا کرنے کی پالیسی نے پاکستان کو جو گہرے گھائو لگائے ہیں، وہ جلدی مندمل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ سیاسی، سماجی اور معاشی بحران دراصل تہہ میں نہاں ایک مسئلے کا بیرونی اظہار ہیں۔ یہ مسئلہ ریاست اور معاشرے کے درمیان کمزور ہوتا ہوا عمرانی معاہدہ ہے۔ جب ریاست اپنا وعدہ اور ذمہ داری نبھانے اور اپنی سیاسی غیرجانبداری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہو جائے تو ناراض عناصر سر اُٹھانے لگتے ہیں۔ ریاست کے دشمن کو نمودار ہونے والی فالٹ لائنز سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہمیں بطور ایک ملک سنجیدگی سے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ریاست کی فعالیت اِن چار عناصر کے گرد گھومتی ہے: سیاست، معیشت، ثقافت اور دفاع۔ سماجی علوم کے ماہرین، چاہے وہ دائیں بازو کے ہوں یا بائیں بازو کے، لبرل ہوں یا رجعت پسند، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کسی ریاست کی سیاسی صلاحیت ہی اس کی معاشی، ثقافتی اور عسکری کارکردگی کا تعین کرتی ہے۔
حال ہی میں آرمی چیف نے ’’اپنا گھر ٹھیک کرنے‘‘ کی اہمیت پر زور دیا۔ در حقیقت یہی بات کرنے پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو بےپناہ تنقید اور دبائو کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مسلم لیگ ن ’’گھر کو ٹھیک کرنا‘‘ چاہتی ہے لیکن اصل سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کس طرح؟ بلاشبہ ’’اپنا گھر ٹھیک کرنا‘‘ پاکستان کا اکیسویں صدی کا پہلا سیاسی بیانیہ ہے۔ اِس کا مطلب ریاست کے آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے مختلف سیاسی عناصر اور اداروں کے کردار کا تعین ہے۔ معاشی اور سیاسی ماہرین متفق ہیں کہ کسی ریاسست کی سماجی اور معاشی ترقی کا دارومدار سیاسی بندوبست پر ہوتا ہے۔ گزشتہ سات عشروں سے ہم متوازن سیاسی بندوبست میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی بجائے ہم نے طاقت کے اصل اور عملی مراکز کے درمیان وسیع ہوتی ہوئی خلیج دیکھی ہے۔ اس سیاسی بندوبست کے تین پہلو ہیں۔ پہلا، اہم ریاستی ادارے آئینی حدود میں رہتے ہوئے مکمل سیاسی غیرجانبداری کا مظاہرہ کریں اور ’’مثبت نتائج‘‘ حاصل کرنے کے لئے سیاسی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی عوامی حمایت کے بل بوتے پر سیاست کرنی چاہئے۔ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے شارٹ کٹ تلاش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔دوسرا پہلو، طاقت کے استعمال پر صرف ریاست کا اختیار ہو۔ وہ اختیار جو آئین اسے دیتا ہے۔ غیرریاستی عناصر کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ پُرتشدد انتہا پسندی کا تدارک کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مربو ط کوششیں درکار ہیں۔ ماضی میں ریاست اور کچھ سیاسی جماعتوں نےسیاسی مفاد کے لئے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ اس رجحان کے خاتمے کے لئے ملک میں خلوص نیت سے مکالمہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔تیسرا، پاکستان کی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کی اصل ترجیح معاشی ترقی ہو۔ ان کے ذریعے ایسی بحث اور مکالمہ آگے بڑھے جو معاشی میدان میں قابلِ عمل اور ٹھوس پالیسی سازی میں معاون ثابت ہو۔ پاکستان کو فوری طور پر معاشی شرح نمو میں اضافے، وسائل کی تقسیم اور نوجوان افراد کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم نئے ابھرتے ہوئے عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوںلیکن جب ’’احتساب ‘‘ کے نام پر سیاسی مخالفین کو ہدف بنانا مقصد ہو تو پھر کچھ بھی ممکن نہیں۔
عدلیہ بحالی تحریک کے دوران مسٹر عمران خان کی سیاسی اٹھان ہوئی۔ عمران خان کے بیانیے کہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ بدعنوانی ہے، کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تاہم اُنہوں نے طاقت ور ریاستی اشرافیہ کی ماضی کی غلطیوں کا تمام الزام سیاسی جماعتوں کے سر ڈال دیا۔ بدعنوانی ایک مسئلہ ضرور ہے لیکن یہی پاکستان کا واحد اور مرکزی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر بدعنوانی معاشی ترقی کا راستہ روک سکتی تو پھر بنگلہ دیش اور بھارت ہم سے کہیں بڑھ کر بدعنوان ہیں، تو پھر وہ پاکستان سے بہتر معاشی کارکردگی کیوں دکھا رہے ہیں ؟ مزید یہ کہ عمران خان کا بیانیہ قوم کو تقسیم کرتے ہوئے قطبیت کا شکار کرنے سے فروغ پاتاہےجبکہ ہماری موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم متحد رہتے ہوئے قوم کے درد کا درماں کریں۔
ضروری ہے کہ ایک نیاسیاسی بندوبست وضع کیا جائے جس میں آئین کی بالا دستی، سماجی، معاشی اور سیاسی ترقی کو مربوط کیا جائے۔ ہر اسٹیک ہولڈر کو اس بڑھتے ہوئے بحران اور کندھوں پر بھاری ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو ریاستی ادارے سیاسی طور پر غیر جانبداری اختیار کریں ۔اس کے بعد رواں برس آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے لازمی بنایا جائے کہ انتخابات سے کم از کم تیس دن پہلے وہ اپنی اصلاحات اور منشور عوام کے سامنے پیش کریں۔ ان کے منشور میں معاشی ترقی، اداروں کے استحکام، شفافیت، میرٹ اور احتساب، گورننس، ریاستی وسائل کا استعمال، اداروں میں اصلاحات کے معروضات واضح ہوں۔ صرف اسی سیاسی بندوبست کے ذریعے ہم پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح کے تصور کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک ایک بحران سے نکل کر دوسرے بحران کا شکار ہوتا رہے گا۔
(صاحبِ مضمون رکنِ قومی اسمبلی اور سابق وزیرِ داخلہ پاکستان ہیں)