24اپریل کو انہی صفحات پر شازیہ مری صاحبہ نے ’’جب گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا جس میں اُنہوں نے جہاں اپنی پارٹی اور قیادت کی خدمات اور قربانیوں کا ذکر کیا وہیں مسلم لیگ ن کے خلاف بالواسطہ نرم الفاظ میں سخت اور غیرحقیقی باتیں بھی کیں۔
کافی دن گومگو کی کیفیت میں رہنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ماضی کی تلخیوں کے تذکرے سے پہلو بچا کر سینیٹ کے موجودہ انتخابات، PDMکے کردار اور استعفوں تک بےکم و کاست حقائق بیان کر دوں۔
پہلا بالواسطہ الزام اُنہوں نے لگایا کہ ’’کُچھ دنوں سے محسوس ہو رہا تھا جیسے پی ڈی ایم کے خلاف سازش پک رہی ہے‘‘ اور یہ سازش، لانگ مارچ سے پہلے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے لگ بھگ 500استعفے دینے کا مطالبہ کیا جانا تھی۔پیپلز پارٹی کو اس وقت استعفے دیکر اسمبلیوں کے مورچے خالی کرنے سے بوجوہ شدید اختلاف تھا۔
استعفوں پر تو PPPنے جواب دینے کیلئے مہلت حاصل کر لی۔ یہ مسئلہ میری دانست میں اکتوبر تک تو ٹل چکا تھا اور اس کا حل بھی نکل آئے گا۔ ویسے ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ کے مطابق ایک کے مقابلے میں نو کی بات مان لینی چاہئے تھی لیکن اگر اتفاق رائے سے فیصلے کرنے کا اُصول ہی مینارۂ نور ہے تو ٹھیک ہے۔ اس حوالے سے سازش کا الزام نہایت سنگین بات ہے۔
اگر میں یہ کہوں کہ PDMمیں پیپلز پارٹی کے کردار پر روزِ اوّل سے ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر آنے والے غیر جانبدارانہ تبصرے، پارٹی کی کمزوریوں کی نشاندہی کر رہے تھے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ اس لئے میں یہ جسارت کروں گا کہ شازیہ مری صاحبہ کو کسی اور پر الزام لگانے کی بجائے محاورے کے مطابق اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے تھا۔
اب آتے ہیں سینیٹ میں یوسُف رضا گیلانی صاحب کے قائد حزب اختلاف بننے کے حوالے سے محترمہ کے موقف کی طرف۔ وہ فرماتی ہیں ’’سینیٹ میں اپنی برتری کی بنیاد پر پیپلز پارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کو قائد حزب اختلاف بنایا تو پی ڈی ایم کے اندر طُوفان برپا ہو گیا‘‘ واہ کتنی سادگی سے اپنی فاش غلطی اور وعدہ خلافی کو بزعم خویش درست قرار دے دیا۔ اِس ضمن میں چند حقائق آپ کے گوش گزار کروں گا۔
پی ڈی ایم کی سطح پر گیلانی صاحب کو سینیٹر بنوانے کے ساتھ چیئرمین سینیٹ کی نشست پیپلز پارٹی، ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ جے یو آئی اور قائد حزب اختلاف کا عہدہ مسلم لیگ ن کو دینے کا متفقہ فیصلہ ہوا، پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اپنے عہد کو پورا کیا۔ یوسف رضا گیلانی صاحب کو پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے پورے ووٹ دیے۔
اپنی پارٹی کے سینیٹرز کے ووٹوں کو قابلِ شناخت بنانے کیلئے غنی صاحب کی مدد سے ایک فول پروف حکمت عملی بنائی جو لیک (Leak) ہو کر یار لوگوں کے پاس پہنچ گئی اور اُنہوں نے 7درست ووٹ جھٹ سے مسترد کروا لئے۔
اگر یہ سو فیصد درست ووٹ مسترد نہ ہوتے تو گیلانی صاحب اس وقت چیئرمین سینیٹ ہوتے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی حکمتِ عملی لیک ہونے کی انکوائری کرتی اور ذمہ دار کو سزا دیتی لیکن اُس نے وعدہ توڑتے اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کونظرانداز کرتے ہوئے حکمران جماعت کے پسندیدہ گروپ کے ساتھ مل کر گیلانی صاحب کو قائد حزب اختلاف بنوا لیا۔ ﷲ کرے گیلانی صاحب کو عدالت سے اُن کا جائز حق جلد ملے اور پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن کے ساتھ وعدہ شکنی کی تلافی کا موقع بھی، آمین!
اب آتے ہیں اس اعتراض کی جانب کہ نذیر تارڑ صاحب محترمہ بینظیر شہید کے قاتلوں کے وکیل تھے اس لئے پیپلز پارٹی کو قابل قبول نہیں تھے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ وہ شہید کے قاتل نہیں ہیں۔
پھر یہ جواز کہ ہم نواز شریف صاحب کو اس حوالے سے اپنے اعتراض سے آگاہ کرنا چاہتے تھے لیکن اُنہوں نے ٹیلیفون ہی نہیں اُٹھایا تو جناب عرض ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوا تو مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ذریعے پیغام بھجوایا جا سکتا تھا۔
تارڑ صاحب سے اتنی ناراضی کہ آپ BAPکے دروازے پر جا کر تعاون کیلئے ہاتھ پھیلانے جا پہنچے، درست نہ تھا۔ پاکستان جمہوری تحریک کے مقاصد بہت عظیم ہیں۔ ان کے حصول کیلئے یہ پلیٹ فارم مینارۂ نور ہے۔
کاش میثاق جمہوریت کے فوراً بعد محترمہ شہید نہ ہوتیں تو اب تک ریاست پاکستان اور عوام کیلئے ہم سب بہت آگے جا چکے ہوتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ایک مقدس مشن ہے۔ اسی میں ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا تابناک مستقبل پوشیدہ ہے۔
یہ مشن منقسم ہو کر نہیں بلکہ متحد ہو کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے دوسری بار پیپلز پارٹی اور اے این پی کی محترم قیادتوں کو پی ڈی ایم میں واپس آنے کی دعوت دی ہے۔ براہ کرم کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ واپس آئیے، گلے شکوے اور معافی تلافی کر لیجئے۔ یہی بہترین راستہ ہے۔
(صاحب ِ تحریر سابق سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ ن ہیں)