اسلام آباد (فاروق اقدس) وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسران ، مختلف ممالک میں متعین سفارتکاروں اور اعلیٰ مناصب پر خدمات انجام دینے والے وزارت خارجہ کے ریٹائرڈ افسران جن میں ایک سے زیادہ سابق سیکرٹری خارجہ بھی شامل ہیں نے وزیراعظم عمران خان کے فارن سروس کے افسران کے بارے میں ریمارکس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ریٹائرڈ افسران نے اپنی ٹوئٹس کے ذریعے وزیراعظم کے ریمارکس پر کھلے لفظوں میں تنقید کی اور پھر وزارت خارجہ کے افسران اور بیرون ممالک تعینات سفارتی عملے کے واٹس ایپ گروپ میں بھی ان ٹوئٹس کا تبادلہ ہوا۔
دفتر خارجہ میں اضطرابی صورتحال پیدا ہونے کی اطلاع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فوری طور پردفتر خارجہ پہنچے اور ایک سو کے لگ بھگ وزارت خارجہ کے افسران جن میں ایڈیشنل سیکرٹریز اور ڈائریکٹر جنرل بھی یکجا تھے۔
ان سے بات کرکے صورتحال پر کنٹرول کرنے کیلئے ’’مخصوص انداز میں اپنی گفتگو‘‘ کے جوہر دکھائے اور انہیں بتایا کہ میرے علم میں یہ ہرگز نہیں تھا کہ وزیراعظم کی گفتگو کی ٹی وی کوریج بھی ہوگی، اس دوران انہیں اپنے افسران کے سخت ریمارکس کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
ان افسران کا کہنا تھا کہ وزیراعظم حقائق سے باخبر نہیں ہیں انہیں بیرونی ملک پاکستانی سفارتخانوں سے جو شکایات ہیں، ان کا وزارت خارجہ کے افسران سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہر سفارتخانے میں مختلف وزارتوں کے افسران کو تعینات کیا جاتا ہے اور سفارتخانہ ان کو سہولتیں فراہم کرتا ہے جن میں پریس اتاشی، کمیونٹی ویلفیئر اتاشی، کامرس منسٹری کا نمائندہ، ڈیفنس اتاشی، نادرا کا عملہ اور تارکین وطن کو سوائے ڈیفنس اتاشی کے شکایات اپنے اداروں کے حکام سے ہوتی ہیں جن میں شناختی کارڈ، مختلف شعبوں جن میں نکاح نامہ، لائسنس، پولیس رپورٹ اور اسی نوعیت کے دیگر معاملات کی تصدیق شامل ہے۔
ان شعبوں کے افراد کی تقرری اور کارکردگی کا سفارتی عملے سے کوئی تعلق نہیں جن دستاویزات کو پاکستان کی متعلقہ وزارتوں میں بھیج دیا جاتا ہے وہاں سے اعتراضات اور تاخیر کے معاملات میں سفارتخانے کو کیسے قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے، ان افسران کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم کے بعض تحفظات درست ہوں لیکن ان کا اظہار ٹی وی پر نہیں بلکہ ’’ان ڈور میٹنگ‘‘ میں کیا جاسکتا تھا۔
وزارت خارجہ کے افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس نمائندے کو بتایا کہ اس سارے عمل میں وزیراعظم کے بعض ان مشیروں کا عمل دخل ہے جو ماضی میں بیرون ملک سکونت پذیر تھے اور دوہری شہریت کے حامل تھے، ان کا اشارہ زلفی بخاری، شہباز گل اور معید یوسف کی طرف تھا، ان افسران کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے ریمارکس سے بیرون ممالک سفارتی خدمات انجام دینے والوں کو دقت اور ندامت پیش آئے گی۔
شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ کے افسران سے استفسار کیا کہ مجھے آپ یہ بتائیں کہ اب نقصان کا ازالہ یا روک تھام کیسے ہوگی، انہوں نے خود یہ تجویز دی کہ آپ اپنے تمام تحفظات اور خدشات سیکرٹری خارجہ سہیل کو لکھ کردیں، میں وطن واپس آکر ان کا جائزہ لیکر آپ سے بات کرلونگا۔
افسران کا کہنا تھا کہ شائد وزیراعظم کے علم میں نہیں کہ وزارت خارجہ کے کیریئر ڈپلومیٹس کو بیرون ملک تعیناتی سے پہلے ملک میں سرمایہ کاری لانے کی نہ تو تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی پہلے اس جانب کوئی توجہ دی جاتی تھی، یہ سلسلہ ابھی آپ نے شروع کیا ہے ۔