حسرت موہانی
آپ نے قدر کچھ نہ کی دل کی
اُڑ گئی مفت میں ہنسی دل کی
خو ہے از بس کہ عاشقی دل کی
غم سے وابستہ ہے خوشی دل کی
یاد ہر حال میں رہے وہ مجھے
الغرض بات رہ گئی دل کی
مل چکی ہم کو ان سے داد وفا
جو نہیں جانتے لگی دل کی
چین سے محو خواب ناز میں وہ
بیکلی ہم نے دیکھ لی دل کی
ہمہ تن صرف ہوشیارئ عشق
کچھ عجب شے ہے بے خودی دل کی
ان سے کچھ تو ملا وہ غم ہی سہی
آبرو کچھ تو رہ گئی دل کی
مر مٹے ہم نہ ہو سکی پوری
آرزو تم سے ایک بھی دل کی
وہ جو بگڑے رقیب سے حسرتؔ
اور بھی بات بن گئی دل کی
مجید امجد
بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار
جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار
گھنے سہانے چھاؤں چھڑکتے بور لدے چھتنار
بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم
قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم
گری دھڑام سے گھائل پیڑوں کی نیلی دیوار
کٹتے ہیکل جھڑتے پنجر چھٹتے برگ و بار
سہی دھوپ کے زرد کفن میں لاشوں کے انبار
آج کھڑا میں سوچتا ہوں اس گاتی نہر کے دوار
اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال
مجھ پر بھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل