مومنہ حنیف
انسان زندگی تین مراحل پر منقسم ہے بچپن ، جوانی اور بڑھاپابچپن چونکہ انسان کا بولنے ،چلنے ،کھانے پینے،کھیلنے ،کودنے ، سیکھنے میں گزر جاتا ہے۔ زندگی کا سب سے اہم و انمول مرحلہ جوانی ہے اس میں جسم و دماغ بھرپور طاقت ور وتوانا ہوتا ہے امنگیں جوان اور جذبے انتہائی پرجوش ہوتے ہیں ۔۔۔ جبکہ آخری مرحلہ بڑھاپا انسان کا لڑکھڑاتے ،ہانپتے کانپتے ، بیماریوں اور بے بسیوں،لاچارگیوں میں گزرتا ہے ۔
زندگی کے دوسرے مرحلے یعنی جوانی کی خوب قدر کرنی چاہیے اور اپنی طاقتوں و قوتوں کو اچھے اور بھلائی کے کاموں میں صرف کرنا چاہیے وگرنہ اس دور میں کی جانے والی بے فکری ،لاپرواہی بڑھاپے میں پچھتاوے کا سبب بن جاتی ہے کیوں کہ گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا۔ اس کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سِل کی سی ہے، جس سے اگر فائدہ اٹھا یا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جائے گی۔جونوجوان وقت کی قدر کر نا جانتے ہیں وہ صحراوٴں کو گلشن بنا دیتے اور عناصر کو مسخر کر سکتے ہیں لیکن جونوجوان وقت کو ضائع کرتے ہیں، وقت انھیں ضائع کر دیتا ہے۔
آج اگر محنت ومشقت سے جی چراکر فضولیات میں وقت گنوا بیٹھے، تو کل پچھتاوا ہوگا، لیکن اس وقت کا پچھتاوا اور افسوس کسی کام نہ آئے گا.... اس کی ایسی ہی مثال اس واقعہ میں مضمر ہے۔واقع کچھ اس طرح ہے کہ ایک بوڑھا شخص کہیں سے گزر رہا تھا، بڑھاپے کی وجہ سے اس کی کمر اس قدر جھکی ہوئی تھی کہ چلتے ہوئے یوں لگتا کہ وہ زمین پر کچھ تلاش کررہا ہے۔ پاس کھڑے ایک نوجوان کو مذاق سوجھا اور کہنے لگا:’’بڑے میاں! کیا تلاش کررہے ہو؟ ‘‘
بات اگرچہ غصہ دلانے والی تھی، مگر اس بوڑھے نے صبر وبرداشت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور طنز کے اس زہریلےسوال کے جواب میں نہایت ہی فکر انگیز بات کی کہ ’’بیٹا! میں اپنی جوانی تلاش کررہا ہوں۔ ‘‘
خلاف توقع حیران کن جواب سن کر وہ نوجوان چونکا اور کہنے لگا:’’باباجی! مجھے ، آپ کی بات سمجھ نہیں آئی، کیا گزری جوانی بھی کبھی ڈھونڈی جاسکتی ہے؟ کیا یہ ایک دفعہ جانے کے بعد دوبارہ پھر کبھی کسی کو ملی ہے؟‘‘
بوڑھے شخص نے کہا:’’بیٹا !یہی تو افسوس ہے کہ جب جوانی کی نعمت میرے پاس تھی اس وقت اس کی قدر نہ کرسکا اور آج جب میں اس سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوں، تب اس کی اہمیت کا احساس ہورہا ہے۔ کاش! مجھے جوانی کا زمانہ ایک بار پھر مل جائے تو ماضی میں ہونے والی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کرلوں اور خوب دل لگاکر عبادت کروں۔‘‘
پھر ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا,’’افسوس صد افسوس! میں اپنی جوانی کی دولت لٹا بیٹھا ،لیکن ’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔‘میں نے اپنی جوانی کی ناقدری کی اور غفلت میں گزاردی ۔دن بھر کھیلوں میں خاک اْڑائی ۔
اب جبکہ مجھ پر بڑھاپا طاری ہوگیا، تو صحت کمزور اور جسم لاغر ہوگیا ہے، کثرت عبادت کا شوق پیدا توہوا لیکن بڑھاپے کے سبب حوصلہ ساتھ چھوڑ گیا۔‘‘
پھر اس ضعیف العمر شخص نے اس نوجوان سے کہا،’’بیٹا...! رب کے فضل واحسان سے تم ابھی جوان ہو، اس جوانی اور صحت سے فائدہ اٹھالو، محنت پر کمربستہ ہوجاؤ، کمر جھکنے سے پہلے کچھ اچھا کرلو ورنہ بڑھاپے میں میری طرح کمر جھکائے جوانی تلاش کرتے پھروگےاُس وقت حسرت وندامت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ کفِ افسوس ملتے رہوگے، لیکن ہاتھ کچھ نہ آئے گا اور حالات کا کچھ اس طرح سے سامنا کرنا پڑےگا کہ بچپن کھیل میں کھویا، جوانی نیند بھر سویا، بڑھاپا دیکھ کررویا۔‘‘
اس مشفقانہ اور ناصحانہ انداز گفتگونے اس نوجوان کے دل ودماغ کو معطر اور بے حد متاثر کیا۔ تھوڑی دیر پہلے اس بوڑھے پر طنز کے تیر چلانے والا نوجوان ، بوڑھے کی باتوں سے متاثر ہو کر کہنے لگا ،کہ میںجوانی کی قدر کروں گا۔واپس جاتے ہوئے سوچ ر ہا تھا کہ واقعی وقت کی ناقدری بالآخر ندامت کا سبب بن جاتی ہے، جیسے یہ بوڑھا شخص جو اپنی جوانی کا سفر فضولیات میں گزار کر جب بڑھاپے میں نیکیوں،اچھائیوں کی طرف آیا، تب تک بہت دیر ہوچکی تھی ۔ اس وقت انسان کچھ کرنا چاہے بھی تو جسم واعضا کی کمزوری اور صحت کی خرابی حوصلے پست کردیتی ہے۔
لہٰذا، جب تک جوانی کی نعمت ہے اور صحت ہے ،اس کو غنیمت جانتے ہوئے رائیگاں نہ جانے دیں ۔ لہٰذا، اے قوم کے نوجوانو! زیادہ سے زیادہ محنت اور اچھے کاموں کی عادت پر استقامت پانے کی کوشش کرلو۔ اگر آج محنت ومشقت سے جی چراکر فضولیات اور برائیوں میں وقت گزار کر ہمت وحوصلہ گنوا بیٹھے، تو کل پچھتاوا ہوگا، لیکن اس وقت کے پچھتانے اور افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ وقت کی تیز رفتار دھار ہمارے لیل ونہار کاٹتی ہی جارہی ہے، وقت کی لگام کب کسی کے ہاتھ آئی ہے اور وقت کی اس گاڑی کو آج تک کس نے کہا کہ ذرا آہستہ چل...!
پس آج وقت کی قدر کیجیے اور اس سے فائدہ اٹھائیے، وگرنہ پھر گیا وقت یاد تو بہت آئے گا مگر ہاتھ نہ آئے گا،کیوں کہ ؎
سدا عیش دَوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں