• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاطمہ خان

زندگی کی لامحدود خواہشات کو محدود وسائل سے پورا کرنا ایک خواب بن گیا ہے، جس کا نتیجہ نوجوانوں میں افراتفری، ذہنی دباؤ اور خودکشی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ نوجوان ہر وقت اداس، مایوس یا غصے میں کیوں رہتے ہیں؟ یا یہ کہ انہیں نیند کم یا بہت زیادہ کیوں آ رہی ہے؟ یا کھانے پینے کے معمول میں بڑی تبدیلی کیوں آ گئی ہے؟ پریشانی یا کوئی خوف ہے؟ جواب میں ایک لامتناہی فہرست کھلتی ہے ۔

مثلاََ غمِ روزگار، پسند کی شادی، تعلیم کے لیے اخراجات کی کمی، سیاسی وابستگیاں اور مغرب کی پیروی کا سامنا وغیرہ۔ وہ زندگی کو اپنے انداز سے جینا توچاہتے ہیں، مگر سہولیات کی کمی انہیں ہر دم ذہنی تناؤ کا شکار رکھتی ہے۔ معاشرتی رویہ بھی اس کا ایک سبب ہے۔ اکثر نوجوان کو جن کے مسائل کا تدارک نہیں ہو تا۔ ان کی بات کو سمجھا اور سنا نہیں جاتا تو وہ بے راہروی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ڈپریشن کا شکار ہے۔ماہرین ذہنی امراض کے مطابق اگر اس کا تدارک نہ کیا جائے تو یہ انسان کو مختلف ذہنی امراض میں بھی مبتلا کرسکتے ہیں اور انسان خود کو ختم بھی کرسکتا ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ معاشی مسائل بھی ہیں، بڑے شہروں میں آبادی کے پھیلاؤ اور پر تعیش لائف اسٹائل کو اختیار کرنے کے جنون میں چیلنجز بڑھ گئے ہیں، اسٹیٹس کی دوڑ میں ہر کوئی جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ کما کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے جنون میں اچھائی اور برائی میں تمیز بھولتا جا رہا ہے ،جس کے باعث نہ صرف سماجی نظام زوال کا شکار ہے بلکہ خونی رشتوں میں بھی خود غرضی اور مفاد پرستی بڑھتی جارہی ہے۔ایسے میں حساس فطرت اور درد مند دل رکھنے والے نوجوان تیزی سے ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔

آج کی نسل ایک ڈیجیٹل دور میں جی رہی ہے جو ایک کلک پرہر چیز کاحصول چاہتی ہے ،جبکہ والدین ابھی تک پرانی اقدار و روایات کے حامل ہیں, اس وجہ سے والدین اور بچوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا چاہتی ہے، نتیجتاً ہر گھر میں ایک باغی بچہ جنم لے رہا ہے، جس کی زندگی کا واحد مقصد صرف اور صرف اپنی خواہشات کی تسکین ہے۔موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن و اینزائٹی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔جس قوم کے معمار ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے، کیا وہ کوئی تخلیقی کام کر پائیں گے؟

برطانوی ماہرین کی ایک تازہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہےکہ کورونا کی وبا نے بھی نوجوانوں کی ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ پوری دنیا کو سماجی اور معاشی طور پر متاثر کرنے والی اس وبا نے نوجوانوں میں کلینیکل ڈپریشن کی سطح کو بڑھادیا ہے۔

نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی کا شکار ہیں۔ نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اپنی عقل و دانش سے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے،جدید طرزعمل اپنا کر اوراپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔

تازہ ترین