علم کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔اب اسے کیا کہا جائے کہ ہمارے ملک میں تعلیمی صورت حال کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں ۔ روشن اور مہذب معاشرے کےقیام کے لیے ضروری ہے کہ علم بے غرض ہو کرحاصل کیا جائے تاکہ معاشرہ اجتماعی ترقی و خوش حالی کی راہ پر گام زن ہو سکے۔
نام ور فلسفی وہائٹ ہیڈ کا قول ہے:"علم زیادہ ہے اور زندگی چھوٹی، اس لیے زیادہ مضامین نہ پڑھائیں لیکن جو کچھ پڑھائیں ، اُسے بھرپور انداز میں پڑھائیں۔"
لیکن ہمارے ہاں زمانے بھر کا علم پڑھانے کی روایت ہے۔کالج ، یونیورسٹی ایک طر ف پرائمری اسکول کے کورس کی تفصیل جان لی جائے اور ان کی کتب دیکھ لی جائیں تو ذہن چکرا جاتا ہے۔ نصاب میں معیار کے بجائے مقدار پر زور دیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں درسی کتب اتنی ضخیم ہوچکی ہیں کہ بچے کے لیے ان کا پڑھنا تو دور، انھیںاٹھانا بھی بوجھ ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نصاب میں غیر ضروری مواد زیادہ ہوتا ہے جس میں ایک ہی بات کی تکرار کی جاتی ہے جس کا عام زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ نصاب میں اکثر ابواب اتنے خشک ہوتے ہیں کہ ان میں بچے کی دل چسپی کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی۔
ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ہم پڑھے لکھے ہیں؟ کیا ہم معاشرے کے ذمہ دار فرد ہیں؟اس کا جواب کون دے گا۔حقیقت یہ ہے کہ تعلیم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ ایک انسان اس وقت تک معاشرے کے لیے مفید نہیںہوتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو۔ لیکن تعلیمی پس ماندگی کے درد میں ڈوب جانے والے صرف لفظوں کی حدتک محدود ہیں، عملی کوششوں سے ان کا دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
نو جوانی زندگی کا اہم ترین دُور ہوتا ہے ۔ اس دور کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کر یں تو کام یابیاں قدم چومتی ہیں ۔ ۔ نوجوانوں کو اپنے آپ کو منوانے کے لیے علم وعمل سے ناتا جوڑنا ضروری ہے۔اپنی صلاحیتوں کو بروئے کا ر لا کر حسدو نفرت سے بچتے ہوئے ،محبت کو فروغ دے کراپنی شخصیت کو اثر انگیز بنا سکتے ہیں۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیںاور تعلیم یافتہ اقوام ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔
مہذب اور خوش حال معاشرے کا خواب وہیں پورا ہوتا ہے جہاں تعلیم کے معیار کو بہترکرنے پر یقین رکھاجاتاہے۔نوجوان ، اب پڑھائی سے ادھوری محبت میں مبتلا ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ترجیحات میں اور بھی کئی چیزیں شامل ہو چکی ہیں، کل تک موبائل فون کو کوئی نہیں جانتا تھا لیکن آج یہ ایک ایسی حقیقت ہےکہ اس کے بغیر نوجوان کی زندگی ادھوری ہے۔ مطلب یہ کہ یہ ان کا ایسا عشق ہے جس کے لیے وہ دیگر سب مصروفیات کو یک سر فراموش کر دیتے ہیں جب کہ تعلیم جزوقتی نہیں، کل وقتی ہے۔ نوجوانوں کو اسسے غافل نہیں ہونا چاہیے۔
اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کی فکر سازی و ذہن سازی اس طرح کریں کہ علم کی حقیقی طلب نوجوانوں کی خواہش ہوجائے۔
مشہور مورخ ایچ جی ویلز لکھتا ہے: ’’دنیا کا سب سے اچھا سیاسی اور سماجی نظام مسلمانوں کے پاس تھا، اسی وجہ سے اُن کو غلبہ حاصل ہوا۔‘‘
ایک اہم شخصیت کا علم کے فروغ میں ممدومعاون ثابت ہونے والے استاد کے بارے میں یہ اہم رائے ہے کہ: ’’استاد جب بچوں کو پڑھا رہا ہوتو غور سے دیکھو ،اگر ایسے پڑھا رہا ہو جیسےوہ اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے تو استاد ہے اور اگر وہ لوگوں کے بچے سمجھ کر پڑھا رہا ہے تو استاد نہیں ہے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا مرکز و محور ایک استاد ہی ہوتا ہے۔نصاب تعلیم خواہ کچھ بھی ہو لیکن استاد اسے اپنی مہارت سے آسان کر کے پڑھا سکتا ہے۔یہ نہ صرف نسل نو کی تربیت کرتا ہے، بل کہ نسل نو اُن کون نظریہ حیات اور تعلیمی نظریا ت سے وابستہ بھی کرتا ہے۔ طلبہ صرف استاد سے کتاب یا اسباق ہی نہیں پڑھتے بل کہ وہ استاد کی ذات وہ شخصیت کا بھی مطالعہ کرتے ہیں۔
آج استاد اور شاگرد کامقدس رشتہ کہیں کھو گیا ہے۔ استاد کا مقام مادیت پرستی اور ماہانہ مشاہرہ سے بالاہے۔اس سے یہ مراد ہر گزنہیں ہے کہ اساتذہ کی اپنی ضروریات نہیں ہوتی ہیں۔ لیکن اس سے بھی رو گردانی نہیں کی جاسکتی کہ اساتذہ کے ہاتھوں میں معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ کی کلید ہونے کی وجہ سے ان کا مقام نمایا ں و بلند ہوتا ہے۔
معاشرہ استاد کو ایسے نمایا ں مقام پر فائز کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ دنیا کے باقی شعبوں کی طرح اپنے ہاتھ منفعت اور مراعات کی لالچ میں آلودہ نہ کریں ۔یہ ایک الگ مسٗلہ ہے کہ علم کے فروغ جیسے معتبر پیشے سے وابستہ افراد نے اپنی وہ قدر و منزلت نہیں بنائی، جس کے وہ متقاضی تھے۔آج کے اُستاد تعلیم کے فروغ کی بجائے صرف مراعات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں،پھر ستم یہ کہ نجی انسٹی ٹیوٹس اور کوچنگ سینٹرزکے بے تحاشا قیام سے اساتذہ کا معیار نہ صرف متاثر ہو رہا ہے بل کہ یہ تعلیم اور اداروں سے دوری کا سبب بن رہا ہے۔ یہ کام صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں بل کہ مقدور بھر نجی ادارے بھی شریک ہیں۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح اور مسائل کا حل تلاش کرنا صرف اداروںکا ہی کام ہے۔ حکومتیں اپنے اداروں سے مخلص ہوکر کام کرتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سالانہ بجٹ میں جس قدر رقوم تعلیم اور صحت کے لیے وقف کی جاتی ہیں، ایسا شاید وطن عزیز پاکستان میں ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ شہری علاقوں میں عمومی جب کہ دیہی علاقوں میں خصوصی طور پر تعلیمی اداروں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
نوجوانوں کے لیے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی تو دور کی بات ہے، بعض کی تو عمارتیں ہی نہیں، کھلے میدانوں میں پڑھایا جاتا ہے۔کہیں عمارتیں تیار کرادی گئی ہیں تواس کی تزئین و آرایش ہنوز غور طلب ہیںاور جہاں عمارتیں ہیں، اسکول، کالج ہیں ، وہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں والدین بچوں خاص کر بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے تیار ہی نہیں ۔
تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے حکومت بھر پور توجہ دے ۔تعلیم کے فروغ کواپنی ترجیحات میں سرِفہرست رکھے۔ اس کے لیے نہ صرف مناسب بجٹ رکھا جائے بل کہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بجٹ کا مناسب اور صحیح جگہ پر استعمال بھی کیا جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ وسائل کے باوجود محکمہ تعلیم کی عدم دل چسپی کی وجہ سے بہت سے اسکولوں، کالجوں کی عمارتوں، کلاس رومز، فنی تربیت کی تجربہ گاہوں اور اسپورٹس گرائونڈ کا بُرا حال ہے۔
اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کا درست استعمال یقینی بنایا جائے۔ اہل افراد کو ان کے مراتب کے مطابق جگہ دی جائے۔اقربا پروری کے ذریعے اہم عہدوں کو حاصل کرنے والے عناصر کی بیخ کنی کی جائے کہ ایک طرف وہ اہل اور میرٹ پر آنے والے افراد کی حق تلفی کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ مدبرانہ صلاحیتوں کے استعمال سےمحروم ہونے کے باعث ادارے کی بھلائی کے کام کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں اور یوں تعلیم کا شعبہ بہ جائے ترقی کرنے کے تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ارباب حل وعقد اس بارے میں سوچتے ہوئے تعلیمی اداروں کی ترقی اور اس کو موجودہ زمانے کی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل بہ روئے کا ر لائیں تاکہ نوجوانوں میں حصول علم کے جذبے کو فروغ دیا جا سکےتاکہ وہ موجود ہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر ایک ترقی یافتہ قوم کی فہرست میں شامل ہو سکیں۔