• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں نے گزشتہ کالم میں سندھ کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے اس بات کا ذکر کیا کہ صدیوں سے قائم سندھ امن کی دھرتی رہی ہے۔اس پورے علاقے کی تاریخ کا جائزہ لیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سندھ کی قوم نے اس پورے علاقے میںنہ کسی پر حملہ کیا اور نہ لفظی بدتمیزی کی۔ گزشتہ کالم میں‘ میں نے اس سلسلے میں دو مثالیں دی تھیں،ایک امریکہ میں جاکر آباد ہونے والے ریڈ انڈینز کی، جو سندھ سے گئے تھے اور دوسرا ذکر میں نے سندھ کے اس وقت کے بادشاہ راجا داہرکے بارے میں کیا تھا کہ راجا داہر کا قلعہ دریائے سندھ کے ایک کنارے پر تھا جبکہ محمد بن قاسم کی فوج دریا کے دوسرے کنارے پر رُک گئی تھی کیونکہ ان کے جہاز سندھ کے سمندری علاقوں میں آکر اترے تھے، ان کے پاس دریا میں چلنے والی کشتیاں نہیں تھیں جب راجا داہر کو اس بات کا پتہ چلا تو اس نے کہا کہ لڑائی تو اس قوت سے لڑی جائے جو ان کی طرح طاقتور اور مختلف سہولتوں سے لیس ہو لہٰذا اس نے کچھ کشتیاں محمد بن قاسم کو بھجوائیں کہ اس کی فوج ان کشتیوں میں چڑھ کر دریا کے اس سائیڈ پر آئےاور ان کے قلعے اور فوج پر حملہ کرے۔ بعد میں محمد بن قاسم کی فوج ان کشتیوں پر بیٹھ کر دریا کے دوسرے کنارے پر آئی اور اس کی فوج نے راجا داہر کی فوج اور قلعہ پر حملہ کیا اور راجا داہر کو شکست دی اور وہ مارا بھی گیا۔ اسی حوالے سے مجھے اپنے ایک دوست نے بتایا کہ ان کے پاس ہندوستان میں شائع کی گئی ایک کتاب ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ ریڈ انڈین سندھ کے رہائشی تھے اور ماضی میں سندھ کے ایک علاقے پر ایک بڑی سامراجی قوت کے حملے کے نتیجے میں ان کو سندھ چھوڑنا پڑا، پھر بچتےبچاتے وہ براعظم امریکا پہنچ گئے اور ریڈ انڈین کہلانے لگے۔ مجھے یہ دو حوالے اس وجہ سے دینے پڑے تاکہ بتاسکوں کہ ریڈ انڈین بن کر امریکہ میں جاکر پناہ لینے والے سندھیوں میں بھی کس حد تک انسانیت تھی کہ انہوں نے مناسب سمجھا کہ گوروں کو بھی فصل اگانے کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ بھی کھانا وغیرہ کھاکر ان سے لڑیں لہٰذا انہوں نے لڑنے والے گوروں کی مدد کرکے ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال دنیا بھر میںآج تک ملنا مشکل ہے ۔ ایسی ہی مثال راجا داہر کے حوالے سے بھی ہے۔ سندھ کی تاریخ سے ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ایسی ایک اور مثال سندھ کے شہروں میں آباد گجراتی میمن کمیونٹی کی بھی دی جاسکتی ہے۔ یہ اصل میں سندھ کے شہری تھے،ان میں سے اکثر ٹھٹھہ اور اردگرد کے علاقوں کے باسی تھے۔ سندھ کے قومی شاعر شیخ ایاز ان گجراتی میمنوں کو "Lost Sons of Sindh" (سندھ کی گمشدہ اولاد) کہہ کر ان کا ذکر کرتے تھے۔ یہ سب کے سب سندھ کی دیگر آبادی کی طرح انتہائی پرامن اور شریف النفس تھے،یہ زیادہ تر بیوپاری تھے، ان دنوں سمندر ٹھٹھہ تک آگیا تھااوردنیا کے کچھ ممالک کے بحری قزاقوں نے اپنی پناہ گاہ کراچی کے نزدیک بنالی تھی،یہ قزاق ہر چند ماہ بعد ٹھٹھہ شہر پر حملہ کرتے تھے اور بڑے پیمانے پر لوٹ مار کرتے تھے۔اس لوٹ مار سے سب سے زیادہ متاثر ٹھٹھہ کے تاجر میمن ہوتے تھے۔ یہ صورتحال کئی سال تک جاری رہی۔ آخر کار اس صورتحال سے تنگ آکر یہ میمن تاجر اس علاقے کو چھوڑ کر ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے، ان کی اکثریت ہندوستان کے علاقے گجرات میں آباد ہوگئی۔وہاں بھی یہ لوگ دکانداری اور تجارت کرنے لگے اور وہاں بھی ان کا رویہ وہی سندھ والا شائستہ اور دوسروں کی عزت اور پیار کرنے والا تھا۔ بعد میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی ۔دو ملک پاکستان اور ہندوستان وجود میں آئے تو یہ گجراتی میمن ہندوستان کو ترک کرکے اپنے پرانے دیس سندھ لوٹ آئے یہاں بھی وہ دکانداری اور تجارت کرتے رہے ہیں۔یہ زیادہ تر کراچی‘ حیدرآباد اور سندھ کے کچھ دیگر شہروں میں آباد ہوگئے۔ان کی شرافت اور پرامن ہونے کا اس سے زیادہ کیا ثبوت دیا جاسکتا ہے کہ ایک عرصے تک خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد میں نسلی فسادات ہوتے رہے مگر ان فسادات میں کہیں بھی کسی گجراتی / سندھی میمن نے حصہ نہ لیا۔وہ ہمیشہ کی طرح پرامن رہے اور آج تک پرامن ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ ان کے آبائو اجداد سندھ میں پیدا ہوئے اور یہاں کے پرامن سماج کا حصہ رہے مگر جب وہ انڈیا گئے تو وہاں بھی ان کے بارے میں ایسی کوئی شکایت نہیں آئی۔اس سلسلے میں ایک قصہ سناتا چلوں کہ ایک بار حیدرآباد دکن میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں کراچی سے بھی کچھ صحافیوں کو مدعو کیا گیا۔ ان میں‘ میں بھی شامل تھا۔ حیدرآباد دکن میں کانفرنس کے اختتام کے بعد میں اور سینئر صحافی مجاہد بریلوی بمبئی آئے اور یہاں ہم دو تین دن رہے۔ ہم نے ایک ہوٹل میں کمرہ لیا۔ بمبئی سے شائع ہونے والے ممتازسندھی رسالے ’’کونج‘‘ کے ایڈیٹر سے میری کافی شناسائی تھی وہ جب بھی پاکستان آتے تو حیدرآباد ضرور آتے تھے اور یہاں ان سے میری کافی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔بمبئی پہنچ کر میں نے ان کو ٹیلی فون کیا، وہ بہت خوش ہوئے۔ دوسرے دن وہ ہوٹل آئے اور مجھے تیار کراکے بمبئی کی سیر کرانے کے لئے باہر لےگئے، وہ مجھے کئی بازاروں میں لے گئے، میں یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ وہاں کے دکاندار یا تو سندھ سے آکر وہاں آباد ہونے والے سندھی ہندو تھے یا گجراتی (سندھی) میمن تھے۔ میں مزید حیران اس وقت ہوا جب مجھے ہر دکان پر سندھی میں ہی بات کرنی پڑتی لہٰذا میری رائے میں بمبئی کی اصل زبان سندھی ہے۔ فقط سندھ اور میمن کی زبان کے تلفظ میں معمولی سا فرق تھا۔

نوٹ :میں ایک بات کی تصحیح کرنا ضروری سمجھتا ہوں گزشتہ کالم میں ایک غلط بات شامل ہوگئی کہ 1947 میں سندھ کے ایک ممتاز رہنما جی ایم سید نے "Save Sindh-Save the Continent" کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا‘ ۔ حقیقت یہ ہے کہ 1947 میں سندھ کے ایک دوسرے ممتاز محقق محمد ابراہیم جویونے یہ کالم لکھا تھا جس کا عنوان"Save Sindh-Save the Continent"تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین