دنیا ی آبادی سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور محتاط اندازے کے مطابق 2050ءء تک یہ تعداد 9ارب سے بھی مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ جو کہ ہماری بقاء کے لئے شدید خطرہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ زمینی تپش میں اضافے (global warming) کے ساتھ پانی کی قلّت کے شکار ممالک پر اس تباہی کے زیادہ اثرات مرتّب ہونگے اور افسوس کہ پاکستان کا شمار ببھی انہیں ممالک میں ہوتا ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ خطہ سندھ ہو گا۔ دریاؤں پر بندوں کے قیام کی وجہ سے خشک ہو جائے گا نتیجتاً 2050ءء تک قحط اور خشک سالی لاکھوں کی آ بادی کو نگل جائے گی اور چند ہی گاؤں خشک دریائے سندھ کے کنارے بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے پائے جائینگے ۔ یہ نقشہ اْسی صورت میں بدل سکتا ہے جب زیادہ سے زیادہ بند تعمیر کئے جائیں اور پانی کے تحفّظ کے طریقوں پر سختی سے عمل کیا جائے۔ عالمی سطح پر موسمی تبدیلیوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کی پیشنگوئی نے اس کرّ ہ ار ض کے بارے میں بڑی خطرناک منظر کشی کی ہے ان کے مطابق اگر کرہٴِ ارضٌ کا درجہٴ حرارت 2050 ءء میں 4 درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے تو ہمالیہ ، یورپ اور دیگرخطّوں کے برفانی تودے پگھل جائیں یں گے پہلے چند سالوں میں بڑے پیمانے پر سیلاب آ ئیں گے اور اسکے بعد بہت عرصے کے لئے دنیا کے بہت سے ممالک خشک سالی کا شکار ہو جائیں گے ۔ اس خشک سالی کے با عث پودے اور جانور تیزی سے ناپیدہو جائیں گے اورلاکھوں اموات ایشیأ ، افریقہ، جنوبی و شمالی امریکہ کے اہم خطّوں کو انسانی آبا دی کے لئے ناقابلِ رہائش علاقوں میں منتقل کرنے کا سبب بنے گی۔جبکہ 9 ارب آبادی قحط اور جنگ وغدر کی بدولت تیزی سے گھٹنا شروع ہو جائیگی۔اسی طرح کا زمینی در جہء حرارت میں اضافہ آج سے 55 لاکھ برس پہلے وقوع پزیر ہوا تھا جب وسیع مقدار میں گہرے سمندروں میں موجود منجمد methane گیس غارج ہوئی تھی جس کے نتیجے میں 5-6درجہ سینٹی گریڈ حرارت میں اضافہ ہوا تھا جس کا نشانہ بنے قطبی علاقوں کے گرم جنگلات لہذ۱ جنوبی افریقہ سے یورپ تک کا وسیع علاقہ ریگستان کی شکل اختیار کر گیا۔اور سمندر میں تحلیل کاربن ڈائی آکسائیڈ نے پانی کو اتنا تیزابی کر دیا کہ بیشتر آبی زندگی ختم ہو گئی۔
سنگین ترین صورتحال یہ ہے کہ 15لاکھ فی ہفتہ کے تناسب سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے یعنی اسی تناسب سے خوراک کی طلب بھی بڑھ رہی ہے۔موسموں کی غیر متوقع تبدیلیاں ایک او ر سنگین عنصر ہیں جو کہ ہمیں مشکل میں ڈال سکتی ہیں۔ 2010ء ء میں ماسکو میں جو گرمی کی شدید لہر آئی تھی اس نے کئی لاکھ ٹن کی اناج کی فصل یعنیٰ فصل کا 40فی صد حصہ تباہ کر دیا تھا ۔ یہی کچھ امریکہ ، چین اوربھارت میں بھی ہوا تھا ۔جس کی وجہ سے اناج کی عالمی پیداوار پر تباہ کن اثرات مرتّب ہوئے۔ خوراک کی قیمتوں میں بیشتر ممالک میں ایک خطرناک شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جس نے لاکھوں غریبوں کے لئے زندگی تنگ کر دی ہے۔بھارت میں ایسے بند کی تعمیر جو کہ پانی کا رخ پاکستان کی طرف سے موڑ دیگا ایک نہایت ہی متنازعہ فیصلہ ہے جو کہ ان دو جوہری ریاستوں کے درمیان جوہری جنگ چھڑنے کے مترادف ہے۔ خوردنی فصلوں کے لئے پانی اور زمین کے گزشتہ کئی عشروں سے بے دریغ استعمال نے شدید خطرہ پیدا کر دیا ہے ۔عا لمی بینک کے اندازے کے مطابق بھارت میں175 لاکھ افراداْن فصلوں پر گزارہ کرتے ہیں جن کی آبیاری زیرِزمین پانی کے زخیر وں کو پمپوں کے زریعے کھینچ کر کی گئی ہو ۔ سعودی عرب بھی گندم کی فصل میں انہیں ذخائر کی بدو لت خود کفیل ہو گیا ہے۔ لیکن زیرِزمین پانی کی سطح ایک خطرناک شرح سے گھٹ رہی ہے۔اور 2سے3 سال ہی کے اندر گندم کی پیداوار رک جائے گی۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی پانی کی قلّت اور کاشتکاری کے لئے گھٹتی ہوئی زمین کی دستیابی ، بڑھتی ہوئی آبادی کی بدولت ہے اس لئے سائنسدان نئے اور زیادہ موٴثر طریقوں سے خوردنی فصلوں کی پیداوار کے لئیے مسلسل کوشاں ہیں جنہیں کم سے کم زمین، پانی، کھاد، غذائی اجزاء اور کیڑے مار ادویات کی ضرورت ہو اور اعلیٰ پیداواری صلاحیت ہو۔ Purdue University کے محقق Burkhard Schulz نے اس مسئلے کا دلچسپ حل تلاش کر لیا ہے ان کی دریافت کے مطابق ایک کیمیائی عنصر ہے جو کہ پودوں کی ساخت چھوٹی کر دیتا ہے لیکن ان کی پیداواری صلاحیت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔Schulzکے مطابق propiconazole ایک عام fungicide ہے جس سے مکئی کے چھوٹے اور پستہ قد پودے پیدا کئے جا سکتے ہیں جن سے زیادہ تعداد میں اناج کی گری پیدا ہو سکتی ہے جبکہ پانی ، کھاداور غذائی اجزاء کی نہا یت کممقدار درکار ہو تی ہے۔یہ fungicideقطعی مضر ِصحت نہیں۔یہ دوا پودوں میں موجود steroid پر اثر انداز ہوتی جو کہ پودوں کی نشو نما کا اہم عنصر ہے اسطرح پودے کم جگہ گھیرتے ہوئے زیادہ اناج پیدا کرتے ہیں۔ہمارے سیّارے پر موجود 98% پانی سمندری پانی ہے بقیہ صرف1% پانی کھارا ہے (جو سمندری پانی سے کم نمکین اور تازہ پانی سے زیادہ نمکین ہوتا ہے) اور 1%تازہ پانی ہے۔ مو جودہ 6 ارب آبا دی اگلے پچّاس سالوں میں 9 ار ب تک پہنچ جائے گی اور جس طرح زمینی تپش میں اضافے کی بدولت پانی کی قلّت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے تو ہمیں خوردنی فصلوں کی کاشت کے لئے متابادل زرائع پر غور و فکر کر نا ہوگی اسی طرح معدنی ایندھن کی کمی بھی نتیجتاً تیل کی شدید قلّت کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ دونوں مسائل نمک روادارفصلوں ) salt tolerant crops ) کی کاشت سے حل ہو سکتا ہے۔سمندر کے کنارے کے قریب کا پانی بھی نمکین ہوتاہے لیکن پھر بھی بہت سے پودے ان حالات میں بھی نشونما پاتے ہیں ۔قدرتی طور پر ان کے اندر ایسا جنیاتی نظام ہے جو انہیں نمک روادار بناتا ہے۔ کچھ پودے ایسے ہیں جنہیں Halophytesکہتے ہیں۔ ان میں ساحلی علاقوں ، ریگستانوں،دلدلی زمین، کھارے پانی کے ذخائر حتیٰ کہ سمندر اور بحیرہ تک میں نشونما پانے کی صلاحیت ہوتی ہے لہٰذا تیل اور خوراک کی فراہمی کا زریعہ بن سکتے ہے۔ان اقسام کے پودوں میں سے اگر نمک روادار جین (salt tolerant gene)کو شناخت کر لیا جائے اور اسے گندم ،مکئی اور چاول کی فصلوں کو اگانے کے لئے استعمال کیا جائے تو ان خوردنی فصلوں میں بھی نمک رواداری (salt tolerance) منتقل ہو جائے گی اسطرح انہیں سمندری اور کھارے پانی کی آبیاری سے کاشت کیا جا سکے گا۔ کچھ پودے( halophytes) ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ زمینی نمکیات کو کم کرتے ہیں لہٰذا یہ پودے سیم اور تھور زدہ زمین کو قابل ِاستعمال بنانے کے لئے بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔کچھ halophytic کائی حیاتیاتی ایندھن کی فراہمی کا بھی زریعہ ہو سکتی ہیں۔ایک اسرائیلی کمپنی Seambiotic اس قسم کی کائی میں سے 5,600 گیلن فی ھیکٹر سالانہ سے زائد تیل حاصل کرنے میں کیمیاب ہو گئی ہے جس کا موازنہ پام آئل کی1,187 گیلن فی ھیکٹر سالانہ ، برازیل میں ایتھینو ل (Ethanol) کی 1,604گیلن فی ھیکٹر سالانہ اور سویا تیل کی150گیلن فی ھیکٹر سالانہ پیداوارسے بخوبی کیاجا سکتا ہے ۔مستقبل میں لوگ غذائی فصلوں کی نشونماکے لئے ضروری توانائی فراہم کر نے کے لئے سمندر ہی کو ترجیح دیں گے۔
سمندری پانی میں موجود نمک کی مقدار کی وجہ سے اسکا پودوں کی آ بیاری کے لئے براہِ راست استعمال نہیں ہو سکتا، البتہ مرطوب ہوا (humid air) پانی کا زریعہ بن سکتی ہے۔حتیٰ کہ سمندروں سے ملحقہ ریگستانوں میں بھی یہ ہوا پودوں کی آبیاری کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ ٹینیرف،ابوظہبی اور عمّان میں ایسے پودوں کی نگہداشت کے گھر (green houses) قائم کئے ہیں جہاں پر سمندری پانی کوپمپ کے زریعے بخارات کی شکل میں چھڑکا جاتا ہے تاکہ نمی کا ماحول تخلیق کیا جا سکے پھر یہی ہوا متحمل ہونے کے بعد خالص پانی کی صورت میں ذخیرہ کی جاتی ہے اور پھر اس پانی کو آبیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ایک بر طانوی کمپنی Seawater Green houses ایسے ہی پودوں کی نگہداشت کے گھر انتہائی کم قیمت5 امریکی ڈالرفی مربع فٹ کے حساب سے تعمیر کررہی ہے۔اور اب اضافی تازہ پانی کے حصول کے لئے پمپ اور جنر یٹر کو چلانے کیلئے شمسی توانائی پلانٹ کو مجتمع کر دیا ہے۔ہمارے ملک کی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی اور زراعت کو بھی ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
ایک اور طریقہ ہے جس کے زریعے نمکین پانی (سمندری اور زیرِزمین کھارا پانی) کو نمک سے پاک تازہ پانی میں ’ مخالف نفوذ عمل ‘ (reverse osmosis) کے زریعے کارآمد پینے اور کھیتی باڑی کا پانی حاصل کیاجا سکتا ہے۔اس میں نمکین پانی کو مخصوص جھلّی (polymeric membrane) کے زریعے پمپ کیا جاتا ہے جو کہ صرف پانی کے سالموں کو گزرنے دیتی ہے اورنمکیات ، جراثیم اور دیگر زرّات کوروک لیتی ہے۔البتہ اس طریقہء کار میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ کچھ عرصے کے بعد یہ جھلّی بدلنی پڑتی ہے ۔کیونکہ نمکیات اور زرّات جھلّی پر جمع ہو کر اس قیمتی جھلّی کو نقصا ن پہنچاتے ہیں۔لہذٰا اس جھلّی کو باقاعدگی سے تبدیل کرنا ضروری ہے جس کی وجہ سے یہ عمل مہنگا پڑتا ہے۔ جامعہ کیلی فورنیا، لاس انجیلس کے سائنسدان اس پر کام کر رہے ہیں وہ اب نینو ٹیکنالوجی کے استعمال سے نئے قسم کی reverse osmosis membrane تیّار کر رہے ہیں جس پر باریک polymeric بال ہیں یہ (سطحی)باریک بال پانی پمپ کر نے کے عمل کے دوران برش کی مانند تیزی سے ہلتے ہیں۔جس کی وجہ سے اس جھلّی کی سطح پر نمکیات ،جراثیم اور دیگر زرّات کی تہ نہیں جمتی ہے۔ایک دفعہ تجارتی بنیادوں پر یہ عام ہو جا ئے تو سمندری پانی سے تازہ پانی کی پیداواری لاگت بھی کم ہو جائیگی۔ لہٰذا ان تجاویز پر فوری عمل درآمد کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔تعلیم ، آبادی کی روک تھام کے لئے طریقے، جدید اورموافق ماحول ِ میں کاشتکاری تکانیک پر عمل، فطرتی توازن کی بحالی کے لئے کاربن کے اخراج میں کمی کے طریقوں پر عمل درآمد، جنگلا ت میں اضافہ،زمینی معدنیات کی حفاظت اورہر سطح پر پانی کی حفاظتی تدابیر پر عملدرآمد ہی میں ہماری بقاء ہے۔ پاکستان میں اگر ہم نے کھانے کے مسئلے کو اعلیٰ ترین ترجیح نہیں دی اور دریاؤں پر بڑے اور چھوٹے بند تعمیر نہیں کئے تو اگلے 30 سے 40 سال میں پورا پاکستان تباہی کا شکار ہو سکتا ہے۔