• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے عزیز دوست جاوید نواز مسقط میں رہتے ہیں جو اِن دنوں لاہور آئے ہوئے ہیں۔ عید کے پانچ روز بعد ملنے آئے، تو بڑے افسردہ دِکھائی دیے۔ کہنے لگے آپ نے گزشتہ برس درد میں ڈوبا ہوا جو فکر انگیز کالم لکھا تھا، وہ لے کر آیا ہوں۔ خدارا! اِسے دوبارہ چھپوا دیجیے کہ ہم اِس وقت دہرے کرب سے گزر رہے ہیں۔ اسرائیل نے ارضِ فلسطین کے کوہ و دَمن خون سے رنگ دئیے ہیں۔ ہمارے وزیرِاعظم، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف، اخبارات اور ٹی وی چینلز سوچے سمجھے بغیر اِسے ’اسرائیلی بربریت‘ کا نام دیے جا رہے ہیں۔ آپ نے مستند تاریخی حوالوں سے یہ حقیقت بیان کی تھی کہ یورپ کے عیسائیوں نے Barbarian (بربریت) کا لفظ اُن عظیم الشان مجاہدین کو بدنام کرنے کے لئے تراشا تھا جنہوں نے طارق بن زیاد کی قیادت میں ہسپانیہ فتح کیا تھا اور اُسے علم و فضل کا گہوارا بنا دیا تھا، جبکہ پورا یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہم اسرائیل کی درندگی اور وحشیانہ مظالم کی مذمت کے لئے وہی لفظ بار بار اِستعمال کر رہے ہیں جس سے یورپ میں اسلامی سلطنت کے معماروں کی تذلیل کا پہلو نمایاں ہے۔ آپ نے اپنے اہلِ دانش اور اربابِ سیاست کو اِس حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے لکھا تھا:

بعض اوقات بڑی عیاری سے کچھ ایسے الفاظ اُس قوم کی زبان و اَدب کا لاشعوری طور پر حصّہ بنا دیے جاتے ہیں جو اُس کے خلاف وضع کیے گئے ہوتے ہیں۔ اِس کی واضح ترین مثال ’بربریت‘ کا لفظ ہے جو ہمارے ہاں درندگی اور بہیمیت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مَیں جس وقت ’بربریت‘ کا لفظ سنتا یا پڑھتا ہوں، تو میرے سینے میں درد کی ایک ٹیس اٹھتی ہے اور میرا ذہن اُن بربر قبائل پر مرکوز ہو جاتا ہے جو اُمت ِ مسلمہ کا عظیم سرمایہ ہیں، چنانچہ مَیں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری سے رابطہ کیا جو عربی ادب کے علاوہ یورپ کی مختلف زبانوں کے مزاج شناس ہیں۔ جناب سجاد میر سے بھی تفصیلی گفتگو ہوئی جو اُردو اور انگریزی ادب کے شناور ہیں۔ حیرت انگیز معلومات کا ایک دبستاں کھل گیا۔ دراصل یونانی زبان میں 'Barbarian' کا لفظ اُن تمام غیرملکیوں کے لئے استعمال ہوتا آیا ہے جو غیر عیسائی تھے۔ بعدازاں اِس زمرے میں وہ جرمن قبائل بھی شامل کر لئے گئے جو روم اور یونان کو بار بار تاراج کرتے رہے تھے۔ آگے چل کر بربر قبائل بھی ہدف بنے۔ عیسائیوں کی پوری کوشش یہ رہی کہ مسلمان یورپ میں داخل نہ ہونے پائیں، مگر 91ہجری کے لگ بھگ ایک طرف محمد بن قاسم قزاقوں کی سرکوبی کے لئے ہندوستان بھیجے گئے اور دُوسری طرف طارق بن زیاد نے بحرِ قلزم کا رخ کیا۔ اِس مہم سے کوئی پچاس برس پہلے ’مغرب‘ یعنی تیونس، الجزائر اور مراکش مسلم سلطنت میں شامل ہو چکے تھے جو ایک تاریخی معجزے سے کسی طرح کم نہ تھا۔ خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ کے زمانے میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے مصر فتح کیا اور وہاں کے گورنر تعینات ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے خالہ زاد بھائی عقبیٰ بن نصیر کو دس ہزار فوج دے کر افریقہ میں ’مغرب‘ کی طرف بھیجا جنہوں نے بحرِاوقیانوس تک وہ تمام علاقے فتح کر لئے جہاں بربر قبائل آباد تھے۔ اِس کے علاوہ تیونس میں قیروان شہر آباد کیا جہاں ایک مدت سے جامعۃ الازہر کے معیار کی جامعۃ الزیتون مرجع خلائق بنی ہوئی ہے۔

طارق بن زیاد اپنے لشکر کے ساتھ مراکش کے شمال میں اُس مقام پر پہنچے جہاں سے ہسپانیہ کی سرزمین صرف نو میل کے فاصلے پر تھی۔ اُن کی فوج میں بربر بڑی تعداد میں شامل تھے۔ خوش قسمتی سے مجھے وہ تاریخی مقام دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ مَیں لندن میں تھا تو یہ اعلان ہوا کہ عرب لیگ کا ایک اہم سربراہ اِجلاس مراکش میں دو روز بعد منعقد ہو رہا ہے۔ جناب الطاف گوہر کی معاونت سے مَیں رباط گیا اَور رَات بھر سفر کر کے عرب لیگ کے اجلاس میں بطور مبصر شامل ہو گیا۔ منتظمین نے بتایا کہ یہ وہی مقام ہے جہاں سے طارق بن زیاد نے بحرِقلزم عبور کیا تھا اور خشکی پر اُتر کر کشتیاں جلا ڈالی تھیں۔ بربر مجاہدین بڑی بےجگری سے لڑے تھے اور یوںا سپین اسلامی قلمرو میں شامل ہو گیا تھا۔

حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کے بعد بربر قبائل کی زندگیوں میں زبردست انقلاب آ چکا تھا۔ امام غزالیؒ کا تعلق بربر قبیلے ہی سے تھا۔ غزالی عربی زبان میں جولاہے کو کہتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک یہ اعلیٰ منزلت کا پیشہ ہے جسے یورپی اقوام نے کمیّوں کا پیشہ بنا رکھا ہے۔ امام غزالیؒ نے انسانی تہذیب کی زلفِ پیچاں کئ جو خم سنوارے ہیں، اُس کا اعتراف مغربی اسکالرز بھی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ابنِ خلدون بھی بربر تھے جو جدید فلسفۂ تاریخ کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے بہترین جرنیل یوسف بن تاشفین کا تعلق بھی بربر قبیلے سے تھا۔ اندلس کے حکمران جن پر یورپ کے عیسائی چڑھائی کرتے رہتے تھے، وہ یوسف بن تاشفین کو اَپنی مدد کے لئے پکارتے رہتے جو لشکر لے کر آتے اور وحشی عیسائیوں کی خوب خبر لیتے ۔ اُن کی سرفروشی اور مردانگی سے خائف ہو کر عیسائی مصنّفین نے Barbarian لفظ کا اطلاق بربر قبیلے پر بڑی شدومد سے کیا۔ یہ لفظ یونانی سے اطالوی اور انگریزی زبانوں میں منتقل ہوتا گیا جس کے بعد اُردو زبان میں ’بربریت‘ کا لفظ بےتکلف استعمال ہونے لگا۔

مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ بربر قبائل جن کی قربانیوں، سخت کوشیوں اور بےپایاں جنوں خیزیوں سے اسلام کی شان و شوکت کا سورج یورپ پر طلوع ہوا اَور جن کے اندر اِسلام کے عظیم الشان مفکر، فلسفی، سائنس دان اور سپہ سالار پیدا ہوئے، ہم ’بربریت‘ کا لفظ استعمال کر کے اُن کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے اربابِ علم و فضل کو اِس نکتے پر غور کرنا چاہئے کہ آیا ہم اِس لفظ کا استعمال مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں، کیونکہ زبانوں میں الفاظ قلتِ استعمال سے متروک ہو جاتے ہیں۔ ہماری اسلامی حمیت کا اوّلین تقاضا ہے کہ جس لفظ سے اہانت کا ذرہ برابر بھی پہلو نکلتا ہو، اُسے بول چال اور لغت ہی سے خارج کر دینا چاہئے، کیونکہ ’بربریت‘ میں بربر کا جزو غالب ہے۔ اِس کا بےمحابا استعمال ہمارے دینی شعور پر چرکے لگانے کے علاوہ اِسلامی تاریخ کے سینے میں بصورتِ شمشیر پیوست رہے گا۔

تازہ ترین