نوجوان نسل میں ہمت و جذبہ ،ذہانت، قوت اور دیگر صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں،یہ ان کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہیں، آسانی سے ہر بات کوقبول نہیںکرتےاور سچائی کے ساتھ اپنا اعتراض بیان کر دیتے ہیں، جب کسی بات پر متفق ہو جائیں تو بے فکری کے ساتھ عمل کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔
دورِ نوجوانی میں ان کی بہت سی خواہشات ہوتی ہیں۔ چوں کہ ان کی شخصیت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ ان کو تسلیم کیا جائے جب کہ اکثر و بیشترایسا ہو نہیں پاتا ۔ اُن کے اندر احساسات و جذبات ہوتے ہیں۔ان کے قدم ایک نئی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، عموماََ ایسا ہوتا ہے کہ ارد گرد کے لوگ، خاندان کے افراد اور معاشرے کے لوگ نوجوانوں کی بدلتی زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں یا پھر اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔
نوجوانوں کے لیے جو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ،ان میں ایک آگاہی کا احساس ہے۔ اس عمر میں وہ حساس بھی بہت زیادہ ہوتےہیں۔ انہیں تعلیم، نوکری، روزگار اور مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ مستقبل کو روشن بنانا ان کے نزدیک بہت اہم ہوتا ہے۔ اپنا گھر بسانا اور ہمت و حوصلے کے مطابق علمی سرگرمیاں انجام دینا بھی ان کے لیےاہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انسان کے اندر پائی جانے والی جمالیاتی حس نوجوانوں میں زیادہ قوی ہوتی ہے، ساتھ ہی جذبات و احساسات بھی ۔
یہی ان کے شخصی اور ذاتی مسائل و امور ہوتےہیں لیکن ان کی فکرمندی یہیں تک محدود نہیں ہوتی وہ اپنے معاشرے کے امور کے سلسلے میں بھی بہت حساس ہوتےہیں۔ یعنی جس فضا میںوہ سانسیں لے رہےہیں ،اگر تفریق و امتیاز ہو تو وہ آزردہ خاطر اور رنجیدہ ہوجاتےہیں اور اگر گھر کے اندر تفریق نظر آئے تو وہ کبیدہ خاطر ہو جاتے ہیں،اسکول اور کلاس میں انہیں تفریق و امتیاز دکھائی دے، تب بھی ان کو تکلیف پہنچتی ہے۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں بے حسی کا شکار ہو گئے ہیں یا اپنی ذاتی زندگی اور امور میں مست ہیں لیکن نوجوان نسل ہر بات کو جذباتی انداز میں سوچتی ہے۔
معاشرے میں انصاف و مساوات کے فقدان اور،تفریق و امتیاز کے ناروا سلوک سے ان کے ذہن منتشر ہوجاتے ہیں ۔ ان کے ذہن اس طرح کی باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔دیکھا گیا ہے کہ قومی جوش و جذبے کا معاملہ ہو تو وہاں نوجوانوں کی فرض شناسی قابل دید ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج ان کی راہیں متعین کرنے والا کوئی نظرنہیں آتا۔انہیں چاہیے کہ اپنے معاملات کے بارے میں خود فیصلہ کریں اور اپنی زمین پر اپنی پسند کا بیج بوئیں، اپنی ثقافتی متاع اور ذاتی صلاحیت سے استفادہ کریں، اپنے ارادوں کو بروئے کار لائیں، اپنی شخصیت اور اپنی آزادی کو اہمیت دیں۔
دوسروں کی تقلید اور اغیار کے آئیڈیاز کی نقل میںکچھ نہیں رکھا۔ جس روش پر چل کر ان کا ذہن، ارادہ اور جذبہ ایمانی تقویت پاتا ہو اور جس پر چل کر وہ اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہو سکتے ہوں اسی جانب توجہ دی جانی چاہیے،تب ہی ملک کی تمدنی زندگی اور اس قوم کی حقیقی تہذیب کا اظہار ہوگا۔
نسلِ نو اپنے اندر تلاش و جستجو، امید و بلند ہمتی، خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو کہ " ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں" کو تقویت پہنچائیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وقت کا بہترین استعمال کریں۔ وقت کو منظم کیے بغیر کچھ کرنا ممکن نہیں ۔ انھیں چاہیے کہ اپنا نظام الاوقات تیار کریں۔نوجوان اپنی عمر کے لحاظ سے، اپنی گھریلو زندگی کی مصروفیات کے لحاظ سے، اپنے وسائل کے لحاظ سے، اپنے شہر کے لحاظ سے جہاں وہ زندگی گزار رہا ہے، ایک مخصوص نظام الاوقات تیار کرے۔ اور اس کے ذریعےاپنے وقت کا بہترین استعمال کرے۔یہ طرز عمل اختیار کیا جائے تو ہ نعمت ثمر بخش اور بارآور بن جائے گی ، اس طرح کے طرز عمل کا لازمہ ہے منصوبہ بندی کرنا، رہنمائی کرنا، جس کا نتیجہ شادابی، تازگی، تعمیر و ترقی، جوش و جذبے اور مفید شکل میں نکلے گا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ آپ کےمسائل کے حل کی اہم کنجی آپ کےماں باپ ہیں جو آپ کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔اچھے حالات میں ان کو کسی طور بھی نہیں بھلانا چاہیے ، کیوں کہ ان کی دعائیں بہتر مستقبل تک رسائی میں آخر تک کام کر تی ہیں۔ تعلیمی عہدہ داروں، سیاسی حکام، معاشی منصوبہ سازوں، سب کو ان افراد میں شمار کیا جاتا ہے جو ملک کے نوجوانوں کی تعمیر و ترقی کے ذمہ دار کہلاتے ہیں۔اس لیے ان کی تعمیر و ترقی میں ان کو لازمی حصہ ڈالنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ بعض مشکلات ایسی ہوں جو قلیل مدت میں حل نہ کی جاسکیں لیکن نوجوان نسل کی ان معاملات میں مدد حاصل کرنا وہ طریقے ہیں جن سے اس صورت حال کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
زیادہ اہم بات تو یہ ہےکہ نوجوانوں کو چاہئے کہ حصول علم کی راہ میں گام زن رہیں اور اپنی علمی توانائیاں بڑھانے کے سلسلے میں ہرگز کوئی کوتاہی نہ کریں۔ جو کام یابیاں وہ حاصل کر چکے ہیں ، اسے حرف آخر سمجھ کر اس پر قناعت نہ کریں ،بل کہ اسے اپناپہلا قدم ہی جانیں۔ نوجوان کوہ پیما کی مانند ہوتا ہے جسے چوٹی پر پہنچ جانے تک آگے ہی آگے بڑھنا ہے۔
راستے کے ابتدائی پیچ و خم میں بسا اوقات انسان کو پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ ابتدائی کام یابی پر قانع رہنے والا نوجوان زندگی کی اگلی نعمتوں اور رعنائیوں سے بے بہر ہ ہو جاتا ہے، جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہماری نظریں چوٹی پر ٹکی ہوں گی تو پھر اس کے لیے محنت کو اپنا شعار بنانا ہوگا ، دشواریوں اور سختیوں کو برداشت کرنا ہوگا تاکہ پہاڑ کی چوٹی کو فتح کیا جا سکے۔